تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے وکیل، خالد یوسف چوہدری نے اپنے موکل کے مقدمات سے متعلق تفصیلات حاصل کرنے کے لیے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت درخواست دائر کردی۔
درخواست میں عمران خان کے خلاف چلنے والے مختلف مقدمات کے بارے میں معلومات طلب کی گئی ہیں اور خاص طور پر سرکاری خزانے سے خرچ ہونے والے پیسوں اور نجی وکلا کی خدمات سے متعلق سوالات کیے گئے ہیں۔عمران خان کے وکیل کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف مقدمات میں سرکاری خزانے سے کتنی رقم خرچ کی گئی؟،کتنے نجی وکلا کی خدمات حاصل کی گئیں اور انہیں کتنی فیسیں ادا کی گئیں؟،اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور پنجاب کتنے مقدمات میں عمران خان کے خلاف سرکاری استغاثہ کے طور پر پیش ہوئے؟،بانی پی ٹی آئی کے مقدمات میں کتنے سرکاری وکلا، کتنی عدالتوں اور کتنے گھنٹے مصروف رہے؟
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمران خان کے خلاف نیب، ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے مقدمات کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ ان مقدمات کی ایف آئی آرز، انکوائری رپورٹس، اور تحقیقاتی رپورٹس سمیت دیگر متعلقہ دستاویزات کی کاپیاں طلب کی گئی ہیں۔ مزید یہ کہ جہاں اٹارنی جنرل، اسلام آباد اور پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل نے عمران خان کے مقدمات میں پیش ہونے کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
خالد یوسف چوہدری نے درخواست میں اڈیالہ اور اٹک جیلوں میں ہونے والے ٹرائلز کے تمام اخراجات کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں، جن میں سکیورٹی، لاجسٹکس، جیل ٹرائل کرنے والے ججز اور عدالتی عملے کے سفر کے اخراجات، ایندھن کے اخراجات اور روزانہ الاؤنس شامل ہیں۔ ان جیلوں میں ٹرائلز کے دوران گزارے گئے دنوں اور گھنٹوں کی مجموعی تعداد بھی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔درخواست میں اسلام آباد ہائیکورٹ، لاہور ہائیکورٹ اور خصوصی عدالتوں میں بانی پی ٹی آئی کے خلاف ہونے والی سماعتوں کی تعداد بھی مانگی گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عدالتی افسران، عملے اور لا افسران کی تخمینی تنخواہوں کے بارے میں بھی معلومات طلب کی گئی ہیں۔
وکیل خالد یوسف چوہدری کا کہنا تھا کہ انہوں نے وفاق کے 6 اور پنجاب کے 4 مختلف اداروں سے تفصیلات طلب کی ہیں۔ ان اداروں میں سیکرٹری الیکشن کمیشن، وفاقی سیکرٹری داخلہ، وفاقی سیکرٹری قانون، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین نیب، آئی جی اسلام آباد، پنجاب پولیس، محکمہ قانون پنجاب، محکمہ داخلہ پنجاب اور آئی جی جیل خانہ جات شامل ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ان تفصیلات کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت درخواست کی گئی ہے، تاکہ عوام کو یہ معلومات فراہم کی جا سکیں کہ عمران خان کے خلاف مختلف مقدمات میں کس طرح کے اخراجات اور وسائل استعمال ہوئے ہیں۔