افغانستان میں طالبان کے زیر اقتدار آنے کے بعد ملک کی اقتصادی اور مالیاتی صورتحال نہایت سنگین ہو چکی ہے۔ حالیہ مہینوں میں، افغانی کرنسی کی قدر میں بے تحاشہ کمی آئی ہے، جس کے باعث معاشی مسائل میں مزید شدت آئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا، جس نے عوام کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرایا ہے۔

افغانستان میں افغانی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ سے عام افراد کو روزمرہ کی خریداری میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں افغانی کرنسی کا تبادلہ شرح اس وقت 73.58 افغانیاں فی ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جو پچھلے کچھ مہینوں میں ایک سنگین تبدیلی ہے۔ جنوری 2025 میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت افغانستان کو غیر ملکی امداد فراہم کرنے کا عمل معطل کر دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں افغانی کرنسی مزید کمزور ہو گئی اور 69 افغانیوں سے بڑھ کر 80 افغانیاں ایک ڈالر کے برابر ہو گئیں۔

افغانستان کے مرکزی بینک، "دی افغانستان بینک” (DAB) نے کرنسی کی قدر کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں حالیہ مہینوں میں کئی نیلامیاں کی ہیں۔ 30 اگست کو بینک نے 20 ملین ڈالر کی نیلامی کرنے کا اعلان کیا، جس کا مقصد مارکیٹ میں ڈالر کے دباؤ کو کم کرنا تھا۔ اس نیلامی میں کرنسی ایکسچینجرز اور تجارتی بینکوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ کامیاب بولی دہندگان کو کاروباری دن کے اختتام تک مکمل ادائیگی کرنا تھی، جزوی ادائیگیاں قبول نہیں کی گئیں۔ اس سے پہلے 17 اگست کو 25 ملین ڈالر کی نیلامی بھی کی گئی تھی تاکہ افغانی کرنسی کی قدر کو مستحکم کیا جا سکے۔

افغانستان میں اقتصادی بحران کا ایک اور بڑا پہلو اس ملک سے لاکھوں افراد کی ہجرت ہے۔ یہ بحران اس وقت مزید بڑھا ہے جب 7 لاکھ سے زائد افغانوں نے اقتصادی مشکلات کے باعث اپنے وطن کو چھوڑ دیا۔ بیرون ملک جانے والے یہ افراد، زیادہ تر اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی حالات کا شکار ہیں۔

طالبان کی حکومت کی پالیسیوں پر عالمی سطح پر شدید سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر افغان حکومت کی اقتصادی حکمت عملی کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں کرنسی بحران، مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ایک نیا بحران جنم لے رہا ہے، جو افغان عوام کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ طالبان حکومت اپنے ملک کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بنانے کی بجائے ملکی ترقی اور معاشی استحکام پر توجہ دے۔ ملک کے معاشی مسائل کا حل اس وقت ممکن ہے جب افغان حکومت عالمی سطح پر اپنے اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرے اور ملکی معاشی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے نئے اقدامات کرے۔افغان عوام اور بین الاقوامی برادری کے لیے یہ ایک نیا چیلنج بن چکا ہے کہ افغانستان کو اس بحران سے نکالنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔

Shares: