اوچ شریف، باغی ٹی وی(نامہ نگار حبیب خان )ہیڈ پنجندکے مقام پر دریائے چناب زہر آلود پانی کا گڑھ بن چکا ہے، جہاں آبی حیات ختم ہو رہی ہے اور انسانی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس نہ ہونے کے باعث صنعتی فضلہ اور سیوریج کا گندہ پانی براہ راست دریا میں شامل ہو رہا ہے، جس نے اس کے پانی کو زہریلا بنا دیا ہے۔ حکومتی منصوبے تو موجود ہیں، مگر عملی اقدامات کا شدید فقدان نظر آ رہا ہے، جس کے نتیجے میں ماحولیاتی تباہی کی صورتحال دن بدن سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ قریبی شہروں کا سیوریج اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والا خطرناک کیمیکل آلودگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ نہ صرف دریا میں مچھلیاں اور دیگر آبی مخلوقات ناپید ہو رہی ہیں، بلکہ دریا کے کنارے بسی جنگلی حیات بھی زہریلے اثرات سے محفوظ نہیں۔
ماہرین کے مطابق آلودہ پانی کے باعث دریا کے کناروں پر موجود درختوں اور پرندوں کی نسلیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف یہی زہریلا پانی کھیتوں میں آب پاشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے سبزیاں اور دیگر اجناس انسانی صحت کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ شہری انجانے میں آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی خوراک کھانے پر مجبور ہیں، جو مختلف بیماریوں کو دعوت دے رہی ہے۔
نیو یارک یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں دریاؤں کے آلودہ پانی میں دوا سازی کے اجزا، نکوٹین، کیفین اور دیگر زہریلے کیمیکل موجود ہیں، جو نہ صرف آبی حیات بلکہ انسانی صحت اور ماحولیاتی توازن کے لیے بھی مہلک ہیں۔ اس کے باوجود متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
عوامی و سماجی، شہری و مذہبی حلقوں نے ارباب اختیار سے سوال کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ حکومت دریائے چناب کی آلودگی ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ کیاہیڈ پنجند کے اردگرد مچھلیوں ودیگر آبی حیات کی نسلیں ختم ہونے دی جائے گی ؟ صنعتی فضلہ اور زہریلے کیمیکل کا ماحولیاتی نظام پر کیا اثر ہو رہا ہے؟ دریا کے زہریلے پانی کا زیر زمین پانی اور زراعت پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟ کیا حکومتی ادارے عالمی تحقیقی رپورٹس کے باوجود کسی عملی اقدام کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اور سب سے اہم سوال یہ کہ دریائی آلودگی روکنے کے لیے قانون موجود ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا؟
اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دریائے چناب کی تباہی ناقابل واپسی حد تک پہنچ سکتی ہے، جس کے اثرات نہ صرف ماحول بلکہ انسانی صحت اور معیشت پر بھی تباہ کن ہوں گے۔ کیا حکومت اور بااختیار حلقے اس خطرے کو روکنے کے لیے جاگیں گے یا پھر یہ دریا بھی صرف ماضی کی ایک داستان بن کر رہ جائے گا؟عوامی و سماجی ،مذہبی حلقوں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے حکام بالا سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے