عالمی طاقتوں کی کشمکش اور پاکستان کا ابھرتا ہوا کردار
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی حالیہ بحث کو غیر معمولی اس لیے سمجھا جا رہا ہے کیونکہ عالمی رہنمائوں کے درمیان اس نوعیت کی سخت گفتگو عموماََ بند دروازوں کے پیچھے ہوتی ہے، لیکن اس بار یہ بحث دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے کھلے عام ہوئی۔ زیلنسکی نے ٹرمپ کے سامنے دبنے کے بجائے بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کیا، جس سے یہ واضح ہوا کہ یوکرین اب کسی بھی قسم کے امریکی دبا ئوکو خاموشی سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
واشنگٹن اور کیف کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ یوکرین جنگ کے ممکنہ معاہدے پر اختلافات ہیں۔ امریکہ کی حمایت پہلے ہی غیر مستحکم ہو چکی ہے اور امریکی قیادت کی بدلتی ہوئی پالیسیوں نے کیف کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی اختلافات اور ٹرمپ کی متنازعہ حکمت عملی یوکرین کے لیے مزید غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہی ہے۔ ٹرمپ کا رویہ یوکرین جنگ کے حوالے سے نہایت سخت اور غیر متوقع رہا ہے۔ وہ یوکرین کو امریکی وسائل پر بوجھ سمجھتے ہیں اور اس تنازعے سے جلد از جلد نکلنے کے حق میں ہیں۔ ان کا یہ مئوقف کہ یوکرین جنگ میں امریکہ کا مزید کردار نہیں ہونا چاہیے، نہ صرف کیف بلکہ یورپ کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
یورپی معیشت شدید زوال کا شکار ہے۔ 2008 کے معاشی بحران کے بعد سے یورپ امریکی سبسڈی پر انحصار کرتا رہا مگر اب امریکہ خود اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی اور کو معاشی سہارا دے سکے۔ اس کی معیشت بنیادی طور پر نوٹ چھاپنے کے مصنوعی عمل پر کھڑی ہے جو طویل المدتی بنیادوں پر غیر مستحکم ہے۔ 2008 کے بحران نے امریکی معیشت کی اصل کمزوریوں کو بے نقاب کیا۔ اس کے بعد سے امریکی معیشت مسلسل کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خرابیاں اور صنعتی پیداوار کے خاتمے نے امریکہ کو غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کر دیا ہے۔برکس اتحاد اسی پس منظر میں وجود میں آیا۔ اس اتحاد کا مقصد عالمی مالیاتی نظام میں ایسی تبدیلیاں لانا ہے جو امریکی معاشی اجارہ داری کو ختم کر سکیں۔ برکس ممالک چاہتے ہیں کہ عالمی مالیاتی نظام میں توازن قائم ہو تاکہ امریکہ اپنی مرضی سے ریزرو کرنسی چھاپ کر باقی دنیا سے معاشی فائدہ نہ اٹھا سکے۔
امریکی معیشت کو کھوکھلا قرار دینے کی بنیادی وجوہات میں اس کی صنعتی زوال پذیری، مصنوعی مالیاتی پالیسی اور حد سے زیادہ فوجی اخراجات شامل ہیں۔ امریکہ کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری تقریبا ختم ہو چکی ہے اور اس کی معیشت اب فنانس، ٹیکنالوجی اور سروس سیکٹر پر مبنی ہےجو اسے چین اور دیگر ابھرتی ہوئی طاقتوں کے مقابلے میں کمزور بنا رہا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان مینوفیکچرنگ سیکٹر کے حوالے سے واضح فرق پایا جاتا ہے۔ چین نے اپنی صنعتی صلاحیت کو مسلسل بڑھایا ہے جبکہ امریکہ نے اپنی فیکٹریاں بند کر کے پیداوار دوسرے ممالک میں منتقل کر دی۔ اس پالیسی نے چین کو عالمی مینوفیکچرنگ حب میں تبدیل کر دیاہے جبکہ امریکہ صنعتی پیداوار کے معاملے میں پیچھے رہ گیا۔
ایشیا کی جغرافیائی برتری کئی عوامل پر مشتمل ہے جن میں یورپ اور افریقہ کے ساتھ براہ راست زمینی روابط، متحرک اور نوجوان افرادی قوت اور ترقی پذیر معیشتوں کی موجودگی شامل ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ جغرافیائی طور پر الگ تھلگ ہوتا جا رہا ہے اور وہ عالمی معیشت کے بڑھتے ہوئے مراکز سے کٹ رہا ہے، امریکہ اور یورپ اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس حاصل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر سکتے ہیں جن میں صنعتی پیداوار کی بحالی، نئی معاشی حکمت عملیوں کا نفاذ اور چین و بھارت جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنا شامل ہے۔ تاہم تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی کوئی عالمی طاقت زوال پذیر ہوتی ہے تو وہ جنگ کا راستہ اختیار کرتی ہے۔
موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہو چکا ہے۔ چین، روس اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات نہ صرف اس کے معاشی استحکام میں مدد دے رہے ہیں بلکہ اسے ایک اسٹریٹجک حیثیت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن، اقتصادی راہداری منصوبوں اور ترقی پذیر معیشت کے باعث خطے میں مرکزی حیثیت حاصل کر رہا ہے۔ سی پیک جیسے منصوبے پاکستان کو بین الاقوامی تجارت اور توانائی کے شعبے میں ایک کلیدی کھلاڑی بنا رہے ہیں۔
تاہم پاکستان کو درپیش چیلنجز میں مغربی طاقتوں کی ممکنہ مداخلت بھی شامل ہے جو خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف حربے استعمال کر سکتی ہیں۔ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر اور اندرونی عدم استحکام کے پس پردہ یہی عوامل ہو سکتے ہیں جو پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہیں۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو بدلتے ہوئے عالمی حالات کے مطابق ترتیب دے اور چین، روس، برکس ممالک اور دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مستحکم کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ اندرونی استحکام، سیکیورٹی اقدامات اور معیشت کو مزید مضبوط کرنے پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نتیجے کے طورپر عالمی نظام کی نئی تشکیل ناگزیر نظر آتی ہے۔ مغرب چاہے اسے تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن یہی حقیقت ہے کہ اب دنیا یکطرفہ امریکی غلبے کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔









