اسلام آباد: پاکستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات میں افغان دہشتگردوں کے ملوث ہونے میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق، افغانستان کی سرزمین دہشتگردوں کے لیے محفوظ جنت بن چکی ہے جہاں سے یہ اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
28 فروری 2025 کو پاکستانی سکیورٹی فورسز نے غلام خان کلے میں ایک کامیاب آپریشن کے دوران 14 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ان میں افغان دہشتگرد بھی شامل تھے۔ ان ہلاک دہشتگردوں میں ایک افغان دہشتگرد کی شناخت منظر عام پر آئی ہے۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق، ہلاک افغان دہشتگرد کی شناخت مجیب الرحمان عرف منصور ولد مرزا خان کے نام سے ہوئی ہے۔ وہ افغانستان کے ضلع چک، صوبہ میدان وردک کا رہائشی تھا۔ مزید برآں، وہ افغانستان کی حضرت معاذ بن جبل نیشنل ملٹری اکیڈمی کی تیسری بٹالین کا کمانڈر تھا۔
اس سے قبل بھی افغان دہشتگرد مارے جا چکے ہیں،30 جنوری 2025 کو بھی پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ایک اور افغان دہشتگرد بدرالدین ولد مولوی غلام محمد کو ڈی آئی خان میں ایک آپریشن کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، بدرالدین افغان فوج میں لیفٹیننٹ تھا اور وہ صوبہ باغدیس کے ڈپٹی گورنر کا بیٹا تھا۔
سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں علاج یا تعلیم کے نام پر آتی ہے، لیکن وہ فتنہ الخوارج کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کئی افغان دہشتگرد اپنی مرضی سے بھی اس تنظیم میں شامل ہو رہے ہیں۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان عبوری حکومت کے کئی اہلکار بشمول تحریک طالبان افغانستان کے سابق کمانڈرز، دہشتگرد تنظیموں بشمول فتنہ الخوارج سے گہرے روابط رکھتے ہیں۔ فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں کے پاس جدید ہتھیاروں کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے درمیان مضبوط گٹھ جوڑ ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق، افغانستان ہر قسم کے دہشتگردوں کی افزائش گاہ بن چکا ہے۔ افغان عبوری حکومت کے اہلکار پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں کے لیے فتنہ الخوارج کی مکمل سہولت کاری کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کو پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہونے کے بجائے افغان عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دینی چاہیے، خاص طور پر صحت اور تعلیم کے شعبے میں، کیونکہ افغان عوام گزشتہ تین سالوں سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
دفاعی ماہرین کے مطابق، فتنہ الخوارج کے ساتھ پاکستان میں گھسنے والے زیادہ تر افغان شہری یا تو مارے جاتے ہیں یا پکڑے جاتے ہیں۔ افغان عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو فتنہ الخوارج کی دہشتگردانہ سرگرمیوں سے دور رکھیں تاکہ وہ ایک بہتر اور محفوظ مستقبل کی طرف بڑھ سکیں.