جیمز ہیریسن، ایک مشہور آسٹریلوی خون کے عطیہ دہندہ جنہیں دو لاکھ سے زائد بچوں کی جان بچانے کا اعزاز حاصل تھا، 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

ہیریسن کے پلازما میں ایک نایاب اور قیمتی اینٹی باڈی، Anti-D، موجود تھی، جو کہ خون کے عطیات میں انتہائی اہم سمجھی جاتی ہے۔ اس اینٹی باڈی کی موجودگی کی بدولت ہیریسن نے ایک ہزار ایک سو سے زائد بار خون کا عطیہ دیا۔ آسٹریلین ریڈ کراس لائف بلڈ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں ان کے انتقال کی تصدیق کی۔

"گولڈن آرم والے انسان” کے طور پر معروف ہیریسن کی 17 فروری کو سڈنی کے شمال میں واقع ایک نرسنگ ہوم میں موت ہوئی،ہیریسن کی انسان دوستی کی کہانی اس وقت شروع ہوئی جب انہیں 14 سال کی عمر میں پھیپھڑوں کی سرجری کے بعد متعدد خون کی منتقلیاں کرنی پڑیں۔ انہوں نے 18 سال کی عمر میں پلازما عطیہ کرنا شروع کیا اور 81 سال کی عمر تک، جو آسٹریلیا میں خون کے عطیات دینے کی سب سے بڑی عمر ہے، ہر دو ہفتے میں خون کا عطیہ دیتے رہے۔آسٹریلین ریڈ کراس لائف بلڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اسٹیفن کارنیلیسن نے ہیریسن کی نیک نیتی کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا، "جیمز ایک بے مثال، انسان دوست اور سخاوت سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے، جو اپنے پورے زندگی کے دوران دوسروں کی مدد کے لیے مصروف رہے۔ انہوں نے دنیا بھر میں بے شمار لوگوں کے دل جیتے۔”

ہیریسن کی بیٹی، ٹریسی میلشپ نے کہا، "میرے والد ایک حقیقی انسان دوست تھے۔” انہوں نے مزید کہا، "میں خود بھی Anti-D کا وصول کنندہ ہوں، اور ان کی قیمتی عطیات کی بدولت ہماری فیملی کا وجود ممکن ہوا، جس کے بغیر ہم موجود نہ ہوتے۔”

Anti-D وہ دوا ہے جو حاملہ خواتین کو دی جاتی ہے جن کے خون میں ریسس بیماری (Rhesus Disease) کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب حاملہ خاتون کا خون ریسس نیگیٹو ہوتا ہے اور اس کے بچے کا خون ریسس پازیٹو ہوتا ہے۔ اگر ماں میں ریسس پازیٹو خون سے حساسیت پیدا ہو جائے، تو وہ اینٹی باڈیز پیدا کر سکتی ہیں جو بچے کے خون کے خلیات کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس کی بدترین صورت میں بچے دماغی طور پر متاثر ہو سکتے ہیں یا مر بھی سکتے ہیں۔جیمز ہیریسن کی اینٹی باڈی سے تیار ہونے والی Anti-D دوا ان خواتین کو ریسس اینٹی باڈیز سے بچاتی ہے جو ریسس نیگیٹو خون رکھتی ہیں۔

آسٹریلوی حکام نے ہیریسن کی اینٹی باڈی کی دریافت کو ایک انقلابی قدم قرار دیا۔ جیمما فالکنمائر، آسٹریلین ریڈ کراس بلڈ سروس کی نمائندہ نے 2015 میں سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا، "آسٹریلیا میں 1967 تک ہر سال ہزاروں بچے مر جاتے تھے اور ڈاکٹر نہیں جانتے تھے کہ کیوں۔ خواتین متعدد مرتبہ اسقاط حمل کا سامنا کر رہی تھیں اور بچے دماغی نقصان کے ساتھ پیدا ہو رہے تھے۔”

ہیریسن کو اپنے انسان دوست کام کی بدولت کئی اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا گیا، جن میں آسٹریلیا کے سب سے بڑے اعزازات میں سے ایک، "میڈل آف دی آرڈر آف آسٹریلیا” شامل ہے۔ ان کا انتقال آسٹریلیا کے لیے ایک بڑے نقصان کے طور پر محسوس کیا جا رہا ہے، لیکن ان کی انسان دوستی کی یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

Shares: