نوشہرہ: دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں 28 فروری کو ہونے والے خودکش دھماکے کی تحقیقات تیزی سے جاری ہیں، جس میں مولانا حامد الحق سمیت 8 نمازی شہید اور 18 افراد زخمی ہوئے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تفتیشی ٹیم نے مختلف زاویوں سے تحقیقات شروع کر دی ہیں، تاہم اب تک نادرا کے ریکارڈ میں خودکش حملہ آور کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دائرے کو افغان مہاجر کیمپوں تک وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کے پیش نظر کیا گیا ہے کہ دھماکے کے پس پردہ عوامل کا پتا چلایا جا سکے اور اس دہشت گردانہ کارروائی کے اصل محرکات تک پہنچا جا سکے۔
مولانا حامد الحق پر ہونے والا یہ حملہ نہ صرف ایک دہشت گردانہ کارروائی کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ملک بھر میں مذہبی رہنماؤں کی حفاظت کے حوالے سے بھی سوالات اٹھاتا ہے۔پولیس اور دیگر تحقیقاتی ادارے اس دھماکے کی تحقیقات میں مصروف ہیں اور ملزمان کو جلد پکڑنے کے لیے تمام وسائل استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ اس حملے کے پیچھے چھپے افراد اور گروپوں تک پہنچا جا سکے تاکہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے۔
28 فروری کو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کے نتیجے میں مولانا حامد الحق سمیت 8 افراد شہید ہو گئے تھے، جبکہ 18 افراد زخمی ہوئے تھے۔ دھماکے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا اور فوراً پولیس و رینجرز کی نفری موقع پر پہنچ گئی تھی۔تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے اور مختلف زاویوں سے تفتیش جاری رکھنے کے باوجود یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ اس حملے کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما ہیں، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ تمام ممکنہ شواہد کی چھان بین کی جا رہی ہے۔