امریکی نیوز ویب سائٹ ایگزیوس کی رپورٹ کے مطابق، امریکی حکومت نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس سے براہ راست رابطہ کیا ہے تاکہ غزہ میں موجود امریکی یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنایا جا سکے۔ یہ انکشاف ایگزیوس نے ان ذرائع کے حوالے سے کیا ہے جو ان مذاکرات سے متعلق معلومات رکھتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق، امریکی حکومت اور حماس کے درمیان ہونے والی بات چیت یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے ایک وسیع تر معاہدے کے حوالے سے تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مذاکرات امریکی صدر کے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر کی قیادت میں گزشتہ ہفتوں کے دوران قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئے۔یہ رابطہ غیرمعمولی نوعیت کا ہے کیونکہ امریکا نے اس سے قبل کبھی بھی حماس سے براہ راست بات چیت نہیں کی تھی۔

واضح رہے کہ امریکا نے 1997 میں حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ تاہم، ٹرمپ انتظامیہ نے اس معاملے پر اسرائیل سے مشاورت کی تھی، لیکن مذاکرات کی تفصیلات اسرائیل کو دیگر ذرائع سے معلوم ہوئیں۔امریکی میڈیا کے مطابق، ان مذاکرات میں بنیادی طور پر ان امریکی شہریوں کی رہائی پر بات چیت ہوئی جو حماس کے قبضے میں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور طویل المدتی جنگ بندی کے امکانات پر بھی غور کیا گیا، تاہم کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ایگزیوس کی رپورٹ کے مطابق، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ پالیسی موجودہ صدر جو بائیڈن کی پالیسی سے بالکل مختلف تھی۔ ٹرمپ نے ماضی میں کئی بار حماس کے خلاف سخت اقدامات کی دھمکیاں دی تھیں اور یہاں تک کہ غزہ کو امریکی کنٹرول میں لینے کی تجویز بھی دے چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے مطابق، حماس کے قبضے میں اب بھی 59 یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے 35 کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ 22 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یرغمالیوں میں 5 امریکی شہری بھی شامل ہیں۔دوسری جانب، غزہ میں جنگ بندی کا 42 روزہ پہلا مرحلہ گزشتہ ہفتے ختم ہو چکا ہے اور دونوں فریقین اس میں توسیع پر متفق نہیں ہو سکے۔ جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد اسرائیل نے غزہ میں داخل ہونے والی تمام انسانی امداد روک دی ہے، جس سے وہاں قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

Shares: