اوچ شریف، باغی ٹی وی (نامہ نگار حبیب خان) سرائیکی وسیب سمیت ملک بھر میں سرائیکی اجرک ڈے بھرپور جوش و خروش سے منایا گیا۔ اوچ شریف اور احمد پور شرقیہ میں خصوصی تقریبات منعقد کی گئیں، جہاں شہریوں اور طلباء نے سرائیکی اجرک پہن کر اپنی ثقافت اور روایات کو اجاگر کیا۔
اوچ شریف میں شہریوں نے سرائیکی اجرک پہن کر اپنی ثقافت اور روایات کو اجاگر کیا۔ مختلف مقامات پر تقریبات منعقد کی گئیں، جن میں شرکاء نے سرائیکی ثقافت کی اہمیت اور اس کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈالی۔
سرائیکی اجرک، جو نیلے اور فیروزی رنگوں سے مزین ہے، وسیب کی قدیم پہچان اور ورثے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس مخصوص رنگ کا انتخاب ملتانی کاشی گری سے متاثر ہو کر کیا گیا ہے، جو کہ خطے کی تاریخی عمارتوں اور مزارات میں نمایاں نظر آتا ہے۔ اوچ شریف میں حضرت جلال الدین سرخپوش، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت اور دیگر بزرگانِ دین کے مزارات اپنی نیلی اور فیروزی ٹائلوں کی بنا پر سرائیکی ثقافت کی روحانی و تاریخی عظمت کی عکاسی کرتے ہیں۔
ثقافتی ماہرین کے مطابق، "اجرک” کا لفظ عربی کے "ازرک” سے ماخوذ ہے، جس کے معنی نیلے رنگ کے ہیں۔ سرائیکی وسیب میں یہی رنگ روحانیت، ثقافت اور فنونِ لطیفہ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
سرائیکی دانشور میاں محمد عامر صدیقی، عمر خورشید، سہمن، شفیق انجم اور عمران دانش نے کہا کہ سرائیکی اجرک نہ صرف ایک پہناوا ہے بلکہ وسیب کی شناخت اور تشخص کی علامت بھی ہے۔ انہوں نے اس ثقافتی ورثے کی ترویج اور قومی سطح پر اس کی شناخت دینے پر زور دیا تاکہ سرائیکی ثقافت کو مزید فروغ حاصل ہو۔
شہریوں نے بھی سرائیکی اجرک کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجرک وسیب کے لوگوں کے اتحاد، محبت اور روایات کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت سرائیکی ثقافت کے فروغ کے لیے اقدامات کرے اور سرائیکی اجرک کو سرکاری سطح پر تسلیم کرتے ہوئے اسے قومی ثقافتی ورثے کا حصہ بنایا جائے۔

احمد پور شرقیہ میں گورنمنٹ صادق عباس گرائجوئٹ کالج ڈیرہ نواب صاحب کے نئے پرنسپل پروفیسر شاہد حسین مغل، وائس پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سیف اللہ جامعی، صدر شعبہ سرائیکی پروفیسر ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی، پروفیسر راشد رسول بلوچ اور پروفیسر عمیر الرحمن چوہان کو 6 مارچ سرائیکی کلچر ڈے کے حوالے سے معزز سول سوسائٹی اور طلباء نے سرائیکی کلچرل اجرک اور پھولوں کے گلدستے پیش کیے۔
اس موقع پر صدر شعبہ سرائیکی پروفیسر ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی نے کہا کہ کسی بھی علاقے کی زبان، تاریخ، ادب، فنون، تہذیب و تمدن اور ثقافت اس خطے کی ہزاروں سال پرانی شناخت کا ورثہ ہوتی ہے۔ سرائیکی نیلی اجرک امن و محبت، رواداری اور برداشت کے تصوفانہ فلسفے کا پیغام ہے۔ پاکستان خوبصورت زبانوں اور ثقافتوں کا حسین روشن گلدستہ ہے۔ مادری زبانیں اور کلچرل روایتی لباس و میلوں سے آپس میں اتحاد و یکجہتی، فطری خوشی، احترام آدمیت اور خلوص جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔









