امریکا کی جانب سے فلسطین اور ایران کی حمایت کا الزام عائد کرنے کے بعد جنوبی افریقا کے سابق سفیر ابراہیم رسول کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے امریکا سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ وطن واپس پہنچے تو کیپ ٹاؤن ائیرپورٹ پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ ان کے استقبال کے لیے عوام کی بڑی تعداد ائیرپورٹ پر موجود تھی، اور اس قدر رش تھا کہ انہیں باہر جانے کے لیے پولیس کی مدد لینا پڑی۔
ابراہیم رسول نے ائیرپورٹ پر عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ناپسندیدہ شخصیت قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں کو بے عزت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن جب آپ کو عوام کی جانب سے اس قدر محبت اور والہانہ استقبال ملے تو میں اس ناپسندیدہ شخصیت کو فخر کے ساتھ اپنے سینے پر سجاؤں گا۔” انہوں نے مزید کہا کہ "ہماری خواہش نہیں تھی کہ ہم واپس آئیں، لیکن ہم بغیر کسی افسوس کے واپس آئے ہیں، ہمیں امریکا کی پالیسیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے پر نکالا گیا۔”
ابراہیم رسول نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی افریقا کے لیے یہ ضروری ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا جائے، کیونکہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی افریقا پر کئی الزامات عائد کیے اور ملک کی فنڈنگ بند کر دی۔ ان الزامات میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس اور ایران کی حمایت کا الزام شامل تھا۔ علاوہ ازیں، ٹرمپ انتظامیہ نے جنوبی افریقا پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ سفید فام افراد کے خلاف پالیسیوں کو فروغ دے رہا ہے۔
ابراہیم رسول نے اپنی تقریر میں کہا کہ "ہمیں امریکا کی جھولی میں اپنے مفادات ڈالنے سے انکار کرنے کی وجہ سے نکالا گیا، اور ہم نے ہمیشہ اپنے اصولوں کے تحت فیصلہ کیا۔” جنوبی افریقا نے دسمبر 2023 میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کی درخواست دائر کی تھی، جس کے بعد دنیا کے 10 سے زائد ممالک نے اس کی حمایت کی۔
امریکا کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ابراہیم رسول کو ملک سے نکالنے کے ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ابراہیم رسول ایک امریکا اور ٹرمپ مخالف سیاستدان ہیں، اور ان کی پالیسیوں کا امریکا کے مفادات کے ساتھ تضاد ہے۔”