افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو پاکستان چھوڑنے کا حکم
ضیاء الحق سرحدی، پشاور
ziaulhaqsarhadi@gmail.com
اجتماعی طور پر پاکستانی قوم کی مہمان نوازی کی اس سے بڑھ کر مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ معاشی مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود پاکستانیوں نے گزشتہ 4 دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ آپس میں سیاسی اور مختلف طرح کے اختلافات کے باوجود کبھی کسی پاکستانی نے اپنے ملک میں افغان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی پر ناک بھوں نہیں چڑھائی۔ خیبر پختونخوا، سندھ، پنجاب یا بلوچستان ہر جگہ ان کو خندہ پیشانی سے قبول کیا گیا۔ یہ ہیروئن، کلاشنکوف اور لاقانونیت کا مزاج اور کلچر ہمراہ لے کر آئے، جس نے پاکستانی سماج کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ اس سب کے باوجود پاکستانیوں نے افغان مہاجرین کو نکالنے یا انھیں واپس بھیجنے کا کبھی مطالبہ نہیں کیا تھا حالانکہ افغان مہاجرین نے مہاجر کیمپوں سے نکل کر ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر کا رخ کیا تو اس وقت بھی یہ پاکستانیوں کی دریادلی اور افغان بھائیوں کے لیے دلوں میں موجود ایثار کا جذبہ تھا جس کی وجہ سے انھیں روکنے کی کوشش نہیں کی گئی جو کہ یقینی طور پر بہت بڑی غلطی تھی۔ اس کے برعکس، ایران میں افغان مہاجرین کے مہاجر کیمپوں سے نکلنے پر مکمل پابندی لگا رکھی تھی۔
پاکستان میں حکومتوں اور عوام کے جذبہ ایثار کے سبب جب افغان مہاجرین نے ملک کے طول و عرض میں کاروباری سرگرمیوں کا آغاز کیا تو بعض علاقوں میں مقامی تاجروں کے کاروبار پر قبضے کی شکایات بھی سامنے آئیں، جس کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صرف اس لیے درگزر کا مظاہرہ کیا کہ ہمارے یہ افغان بھائی جنگ زدہ افغانستان میں اپنا گھر بار اور کاروبار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بڑی مشکل سے جان بچا کر پاکستان آئے ہیں۔ یہی مہربانیاں تھیں جن کی بدولت افغان مہاجرین پاکستان میں مہمان ہونے کے باوجود مقامی آبادی کے مقابلے میں پھیلتے پھولتے چلے گئے۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزارت داخلہ نے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو 31 مارچ 2025 تک پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ وزارت داخلہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر موجود غیر ملکیوں کی واپسی کا پروگرام (آئی ایف آر پی) یکم نومبر 2023 سے نافذ ہے اور اب تمام غیر قانونی غیر ملکی اور اے سی سی ہولڈرز کو 31 مارچ 2025 تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی بھی یکم اپریل 2025 سے ملک بدری کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو باعزت واپسی کے لیے کافی وقت دیا جا چکا ہے۔ وزارت داخلہ نے کہا کہ واپسی کے عمل کے دوران کسی کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جائے گی، واپس جانے والے غیر ملکیوں کے لیے خوراک اور صحت کی دیکھ بھال کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنے وعدوں اور فرائض کو پورا کرتا رہا ہے اور یہاں رہنے والے افراد کو تمام قانونی تقاضے پورے کرنے اور آئین کی پابندی کرنا ہوگی۔
افغانستان کے خلاف سابق سوویت یونین کی جارحیت کے دوران لاکھوں افغان مہاجرین ہجرت کر کے پاکستان آئے اور انہوں نے ملک کے مختلف شہروں میں پناہ لی۔ پاکستانی عوام نے اپنے افغان بھائیوں کا دل کھول کر استقبال کیا، انہیں اپنے گھروں میں پناہ دی اور ہر ممکن مدد فراہم کی۔ ہجرت کر کے پاکستان آنے والے مہاجرین کو صرف افغان کیمپوں تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ انہیں ہر جگہ آنے جانے اور کاروبار کرنے کی بھی مکمل اجازت دی گئی تھی۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد سے ملک کی معیشت پر بھی بوجھ بڑھا جبکہ متعدد مہاجرین مختلف جرائم میں ملوث رہے، جس کی وجہ سے امن و امان کے مسائل بھی پیدا ہوئے۔
سوویت یونین کے انخلا کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس چلے جاتے لیکن اس کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین اب تک پاکستان میں موجود ہیں۔ گزشتہ سال حکومت نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے انخلا کا اعلان کیا، جس کے دوران تقریباً 9 لاکھ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس جا چکے ہیں جبکہ اب بھی ان کی بڑی تعداد یہاں چوری چھپے مقیم ہے۔ اب افغان مہاجرین کو چاہیے کہ وہ خود رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپس جائیں اور ملکی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں۔
پاکستان نے افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کے لیے افغان طالبان کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے اور کابل کو واضح الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ اسلام آباد یکم اپریل سے تمام غیر قانونی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو ملک بدر کرنے کے منصوبے پر قائم رہے گا۔ افغان حکومت نے حال ہی میں اپنے شہریوں کی جبری ملک بدری اور مبینہ ناروا سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے تاہم پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا ہے کہ افغان حکومت اپنے ہم وطنوں کی باوقار واپسی کے لیے ماحول پیدا کرے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو نکالنے کی وفاقی پالیسی سے ان کا اختلاف ہے اور اگر افغانی پاکستان کی شہریت لینا چاہتے ہیں تو انہیں دے دینی چاہیے۔ پاکستان نے افغانستان پر سوویت جارحیت کے دور سے لے کر اب تک تقریباً 50 لاکھ افغانوں کی میزبانی کی ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے کسی بھی مہاجر کو وہ آزادی نہیں دی جو پاکستان میں افغانوں کو دستیاب رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بعض افغان مہاجرین اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں بدامنی یہاں تک کہ دہشت گردی میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں دس سے زیادہ افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر افغان مہاجرین پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہوئے افغانستان کی تعمیر و ترقی کے گن گاتے ہیں، افغان حکومت کا بھی یہی دعویٰ ہے۔ لہٰذا ان مہاجرین کو چاہیے کہ وہ نصف صدی کی میزبانی کے بعد اپنے وطن واپس جائیں۔ افغان حکومت کو بھی اپنے شہریوں کے حوالے سے کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور انہیں قبول کرنا چاہیے۔
یہی وہ عوامل ہیں جن کے سبب وزارت داخلہ نے تمام غیر قانونی تارکین وطن اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو 31 مارچ 2025 تک ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی ہے، جس میں ان کی عزتِ نفس اور خیریت کو یقینی بنایا جائے گا۔ افغان مہاجرین کی پاکستان سے رخصتی کے حوالے سے حکومت کے اعلان پر پاکستانی عوام نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے قومی سلامتی اور معاشی دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے بجا طور پر یہ اقدام اٹھایا ہے۔ افغان مہاجرین کو بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان گزشتہ 4 دہائیوں سے ان کی میزبانی کا فریضہ ادا کر رہا ہے۔







