بن تیری دید کیسی عید

آج عید کا دن ہے لیکن ابو،بہن بھائی کسی کو بھی کوئی اکسائٹمنٹ نہیں ہے، یہ عید بھی خاموشی سے گزر جائے گی سحری کیلئے اٹھانی والی شفیق ماں کی آواز نہیں آئی، جب ماں کی آواز نہ سنائی دی تو سحری کیلئے بھی دل نے ساتھ نہ دیایوں رمضان کے 29روزے بغیر سحری کے رکھے،سحری کے وقت اٹھ کر ایک گلاس پانی پی لینا۔

امی کے رحلت کے بعد ایک دوست نے پوچھا کہ ماں جی کہ کتنی عمر تھی تو منہ سے فی البدیہہ نکلا کہ ”ماں کی کوئی عمر نہیں ہوتی، ماں تو ماں ہوتی ہے“پیدائش سے بچپن اور جوانی تک ماں کا ایک ہی روپ دیکھا،ماں ایسی ہستی ہے جسے ہم کسی بھی عمر میں کسی صورت کھونا نہیں چاہتےاگر اللہ آپشن دیتا کہ اخروی جنت چاہئے یا دنیاوی جنت تو فوراً سے پہلے ماں کے قدموں کو ترجیح دیتا،میں نے کبھی ”مدرڈے“ پر کوئی پوسٹ نہیں لگائی کیونکہ ہر دن اور ہر لمحہ ماں کی ہی بدولت ہے۔

گھر میں داخل ہوتے ہی دروازہ کھولنے والے کی بجائے بھی بھاگ کر سب سے پہلے امی سے ملنے کی عادت تھی کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ماں کے بغیر بھی رہنا یا جینا پڑ سکتا ہے ہم بہن بھائی خود غرضی کی حد تک ماں سے پیار کرتے ہیں، ہم جتنے بھی بڑے ہوگئے لیکن امی کے پاس جاکر اندر کا بچہ جاگ جاتا اور ان کے گرد ہی رہنا۔

تمہارے بعد کبھی یہ نہیں کہا ہم نے
ہمارے پاس خدا کا دیا سب کچھ ہے

با کردار، حیا دار، پیکر ایثار، عبادت گزار، خدمت گزار، غریب پرور اور بلند عزائم سے سرشار، ہر خوبی ان کی ذات میں موجود، وہ آئیڈیل، قابل تقلید اور عظیم ماں تھیں خاندان یا کسی بھی جاننے والی خواتین نے گھر آکر امی سے کوئی مسئلہ ڈسکس کرنا تو انہوں نے تب تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک اس کا مسئلہ حل نہ ہوجائے۔

امی کی کال آتی کہ بیٹا وہ فلاں عورت گھر آئی ہے اسکا فلاں کام ہے وہ کروا دو، اگر فوری مسئلہ حل ہو جاتا تو شاباش دیتی کہ اس عورت نےہمیں کتنی دعائیں دیں،نہیں تو دوبارہ کال آجاتی کہ پتر تو سہی طرح نہی آکھیا ہوئے گا پتر لوکاں دے کم کریاں اللہ راضی ہوندا اے،
جو بھی مدد کے لئے آیا اسے خالی ہاتھ نہ جانے دیا، محلے میں کسی خاتون یا بزرگ کی تیمارداری کیلئے جانا وہاں دیکھنا کہ اگر ان کے پاس ایک جیسے برتن نہیں تو واپس آتے ہی گھر میں موجود باکس پیک ڈنڑ سیٹ بھیج دینا۔

اکتوبر 2005کے زلزلے میں گھر کا نصف سے زائد سامان زلزلہ زدگان کیلئے دے دیا۔ رحم دلی اور شفقت گھر سے لےکر ہسپتال میں آخری سانسوں تک ان کا خاصہ رہی ان کو اپنے ساتھ والے مریض اور اس کے لواحقین کی بھی فکر ہوتی کہ یہ دور سے آئے مسافر اور پریشان لوگ ہیں ان کیلئے بھی کھانا لےکر آیا کرو، ان سے پوچھو کہ کسی کو رہائش کا مسئلہ تو نہیں۔

گذشتہ رات سوشل میڈیا پر معصوم جانور کے ساتھ ظلم کی ویڈیو دیکھی تو ماں یاد آئی انہوں نے سختی سے حکم دیا ہوتا تھا کہ جانور بے زبان ہوتے ہیں ان کا خیال رکھنا چاہئےجانور معصوم تے اللہ دے پرونے ہوندے نے “ جانوروں کے ساتھ برا سلوک کرو گے تو یہ اللہ کو شکایت لگائیں گے۔ امی نے بہت سارے پرندے رکھے ہوئے تھے ان کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں۔

گھر کی دوسری اور تیسری منزل پر امی نے درجنوں کونڈے رکھے ہوئے ہیں جن میں باقاعدگی سے باجرہ، مکئی، گندم اور پانی ڈالا کرتی تھیں کہ یہاں سے گزرنے والے پرندوں کو خوراک مل جائے۔

بچپن میں ہمارا پرانا گھر کافی بڑا اور کشادہ تھا جس میں بہت سارے پھل دار پودے اور سبزیاں بھی لگی ہوتی تھیں، گھر کے سہن میں روٹیاں پکاتے وقت پرندے آتے تو امی ان کو آٹے اور روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈالتیں ہمارا گھر چڑیوں کوؤں اور رنگ برنگے پرندوں کا مسکن ہوتا امی کے دیکھا دیکھی ہم نے بھی امی سے دو روٹیاں لینی اور جتنی خود کھانی ہوتی کھالیتے اور باقی پرندوں کو ڈال دیتے۔

زبان اور دل آج بھی ان سے دوری کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔

لاکھ اپنے گرد حفاظت کی لکیریں کھینچوں
ایک بھی ان میں نہیں ماں کی دعاؤں جیسی

ہمیشہ دعا گو رہنے والی ماں کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ آمین

ملک محمد سلمان
maliksalman2008@gmail.com

Shares: