پاکستان کی تاریخ میں بہت سی اہم ہستیاں گزری ہیں جن کے نام آج بھی ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں، لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام ایک الگ ہی نوعیت کی کہانی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ عافیہ صدیقی ایک ایسی شخصیت ہیں جو نہ صرف اپنے ملک کی بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ان کی زندگی کا قصہ ایک ایسی المیہ کہانی ہے جس میں ظلم، بربریت اور بے گناہی کے تمام پہلو سامنے آتے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق کراچی کے ایک تعلیم یافتہ اور معتبر گھرانے سے تھا۔ 1972 میں کراچی میں پیدا ہونے والی عافیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی۔ ان کی ذہانت اور محنت نے انہیں تعلیم کے میدان میں نمایاں مقام دلایا۔ 1992 میں عافیہ نے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں ٹیکساس میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔عافیہ نے امریکہ میں رہ کر ایک ایسی اہم تحقیق کی جس کے بعد وہ عالمی سطح پر شناحت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ ان کی تحقیق میں ایک ایسا فارمولا دریافت کیا گیا جو کہ مہلک ہتھیار تیار کرنے کی بنیاد بن سکتا تھا۔ عافیہ کی اس تحقیق کو امریکہ کے لیے اہمیت حاصل تھی، لیکن عافیہ نے اس فارمولا کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر یہ فارمولا امریکہ کے ہاتھ لگ گیا تو یہ اسلام اور اسلامی ممالک کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔عافیہ کی ذاتی زندگی بھی اتنی آسان نہیں تھی۔ 1995 میں ان کی شادی ایک پاکستانی سائنسدان امجد محمد خان سے ہوئی۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی، لیکن اس کے باوجود ان کی شادی کامیاب نہ ہو سکی۔ 2002 میں ان کے درمیان اختلافات شدید ہو گئے اور بالآخر طلاق ہو گئی۔ ان اختلافات کے دوران امجد خان نے عافیہ پر مختلف الزامات عائد کیے۔
عافیہ کا سفر ایک سنگین موڑ پر 2003 میں آیا جب امریکہ نے پاکستان سے عافیہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد عافیہ کو پاکستان سے گرفتار کر کے افغانستان پھر امریکہ منتقل کر دیا گیا۔عافیہ کی گرفتاری کے پانچ سال بعد، اس بات کی تصدیق ہوئی کہ وہ امریکی جیل میں قید ہیں، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس دوران امریکہ نے عافیہ پر شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کیا تاکہ وہ اپنے فارمولا کے بارے میں بتائے۔ عافیہ نے اپنے عزم کو قائم رکھا اور امریکہ کے سامنے سر نہیں جھکایا۔عافیہ کو اتنے سخت سزاؤں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کی ذہنی حالت مفلوج ہو گئی۔ امریکہ نے بار بار کوشش کی کہ وہ عافیہ سے اس تحقیق کا فارمولا حاصل کرے، مگر عافیہ کا جواب ہمیشہ یہی رہا کہ وہ یہ فارمولا کسی قیمت پر نہیں دے گی۔
دوران قید، امریکہ نے پاکستان سے عافیہ کی رہائی کے لیے بات کی، اور 2012 میں امریکہ کے صدر بارک اوباما نے پاکستان سے کہا کہ وہ عافیہ کی واپسی کے لیے تیار ہیں، مگر پاکستانی حکومت نے اس مسئلے میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی۔ اس طرح عافیہ آج بھی امریکہ کی قید میں ہیں، اور ان کے خاندان والے ان کی واپسی کے منتظر ہیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی نہ صرف ظلم اور جبر کی کہانی ہے، بلکہ اس میں ایک ایسی عورت کی قربانی کی داستان بھی چھپی ہوئی ہے جس نے اپنے وطن، اپنے نظریات اور اپنی قوم کے لیے اپنی زندگی کا سب سے قیمتی حصہ قربان کر دیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی رہائی کے لیے آواز اٹھائیں اور عالمی سطح پر اس کی آزادی کے لیے کوششیں کریں۔عافیہ کے خاندان کی جدو جہد اور ان کے صبر و استقلال نے دنیا کو یہ دکھا دیا ہے کہ ظلم کے باوجود سچ اور اصول کی جیت ہوتی ہے۔ ہمیں ان کی رہائی کے لیے آواز اٹھانی چاہیے تاکہ ان کی قربانی رائیگاں نہ جائے۔








