بی وائی سی کی جانب سے اختر مینگل کے دھرنے کی حمایت پر نئے سوالات اٹھ رہے ہیں، جو پاکستان کے قومی اور صوبائی سطح پر سکیورٹی اور سیاسی معاملات میں اہمیت رکھتے ہیں۔
اختر مینگل، جو بلوچستان کے ایک معروف قوم پرست سیاست دان ہیں، نے ہمیشہ اپنے موقف میں بلوچ قوم کے حقوق کی بات کی ہے۔ لیکن ان کے سیاسی تعلقات اور ان کے بھائی جاوید مینگل کی دہشت گرد تنظیم "لشکر بلوچستان” کے ساتھ روابط نے ان کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں۔اختر مینگل کا بھائی جاوید مینگل، جو کہ دہشت گرد گروپ "لشکر بلوچستان” کا لیڈر ہے،مبینہ طور پر بلوچستان میں خونریزی اور دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔ "لشکر بلوچستان” پر الزام ہے کہ وہ علاقے میں قتل و غارت، بدمعاشی، اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ہے، اور اس کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں اختر مینگل نے "بلوچ لبریشن آرمی” (بی ایل اے) کے دہشت گردوں کے لیے دعا کی۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد، یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اختر مینگل کی بی ایل اے کے ساتھ سیاسی اور اخلاقی حمایت کا تعلق ہے۔بی وائی سی نے اختر مینگل کے دھرنے کی کھل کر حمایت کی ہے، بی وائی سی کی جانب سے اس حمایت نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ یہ تنظیم بھی ان دہشت گرد گروپوں کے سہولت کاروں میں شامل ہو سکتی ہے، جنہیں اکثر بلوچستان میں امن و سکون کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
حکومت پاکستان اور بلوچستان کی سیاسی قیادت کے لیے یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ ان گروپوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بلوچستان میں امن قائم رکھنے کی کوشش کریں۔
بی وائی سی کی جانب سے اختر مینگل کے احتجاج کی حمایت کا اعلان ایک سنگین پیش رفت ہے جس سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ بی وائی سی کا بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اختر مینگل نے اپنے حالیہ بیانات میں بی ایل اے کے دہشت گردوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور اب وہ کھل کر بی ایل اے کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کے بیانات میں بی ایل اے کے حق میں کسی بھی قسم کی پردہ پوشی نہیں کی گئی۔یہ سب ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ بی وائی سی، اختر مینگل اور بی ایل اے کا ایک مشترکہ ایجنڈا ہے جس کا مقصد بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنا اور پورے ملک میں افراتفری پھیلانا ہے۔ ان گروپوں کا مقصد بلوچستان کے عوام کو دہشت گردی اور تشویش کے ذریعہ ہراساں کرنا ہے تاکہ امن و سکون کو ختم کیا جا سکے۔
اختر مینگل کے اس حمایت کے بعد بی وائی سی اور بی ایل اے کے مابین تعلقات مزید واضح ہو گئے ہیں۔ ان دونوں کے بیانات اور اقدامات ایک ہی سمت میں ہیں، جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کا مقصد صرف بلوچستان نہیں بلکہ پورے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے کیونکہ اس سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے امن و سکون کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایسے میں حکومتی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کریں جو پاکستان کی سالمیت اور امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
علاوہ ازیں اختر مینگل نے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کو انٹرویو میں پاکستان اور اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا، اختر مینگل کا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسائل سیاسی ہیں، سیکورٹی سے متعلق نہیں اور مبینہ طور پر فوجی مداخلتوں نے بحران کو مزید خراب کیا۔اختر مینگل اگر درست کہہ رہے ہیں مسائل سیاسی ہیں تو بلوچ پہاڑوں پر کیا کر رہے ہیں، آئے روز بسیں روک کر شہریوں کو کیوں شہید کیا جاتا ہے، کیا اختر مینگل اس بات کا جواب دیں گے.
اختر مینگل نے پروپیگنڈہ کیا کہ بلوچستان ریاست کے کنٹرول سے باہر نکل رہا ہے، مبینہ طور پر تعلیم یافتہ نوجوانوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، بلوچستان کے نوجوان نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک میں بھی سکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں
اختر مینگل نے جبری گمشدگیوں پر تنقید؛ کی اور مزید پروپیگنڈہ کیا کہ ہزاروں خاندانوں کو مبینہ طور پر سالوں سے نقصان اٹھانا پڑا۔حالانکہ حقیقت متعدد بار سامنے آ چکی ہے کہ جن کو مسنگ پرسن کہا جاتا ہے وہ دہشت گردی کی واقعات میں ملوث ہوتے ہیں اور جب کسی واقعہ کے بعد لاشوں کی شناخت ہوتی ہے تو اس میں مسنگ پرسن نکل آتا ہے،مسنگ پرسن دہشت گردوں کا روپ دھار چکے ہیں،