کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہم سب پاکستان کی موجودہ خستہ صورتحال کے ذمہ دار میں ،مقروض پاکستان کی زبوں حالی کا ذمہ دار کرپٹ سیاست دانوں کو ٹھہرانا اور سوشل میڈیا پر پوسٹ یا سٹیٹس لگا کر کو ستے رہنا معمول بن چکا ہے لیکن ہم اس امر پر غور کرنا گوارہ نہیں کرتے کہ جہاں غیر منصفانہ ،ظالمانہ اور کرپٹ نظام کے خلاف ہمیں متحد ہو کر کھڑے ہونا اور حق کی آواز بننا چاہیئے وہاں ہم سوشل میڈیا پر خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھتے ہیں جو ایک سنگین جرم ہے جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھی بھگتیں گی۔
ظالم کو مزید طاقتور مظلوم کی خاموشی بناتی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ وطن عزیز اور قوم کی بد حالی کے ذمہ دار اور غداروں کا ہماری خاموشی نے کس طرح ساتھ دیا۔ تاریخ گواہ ہے بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح اپنی ہی قائم کر دہ ریاست میں مٹھی بھر غداروں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہ سکے، قیام پاکستان کی خاطر بھائی کے ہمراہ شانہ بشانہ چلنے والی بانی پاکستان کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اسی ملک میں غدار ٹھہرا دی گئی مگر ہم خاموش رہے۔گزشتہ برس خواب پاکستان دیکھنے والے شاعر مشرق علامہ اقبال کے پوتے اور بہو کو سر عام تشدد کا نشانہ بنا کر اسی ملک میں ان کی تذلیل کی گئی مگر ہم خاموش رہے۔
مخلوط نظام تعلیم کے نام پر چلائے جانے والے تعلیمی اداروں نے ہماری نوجوان نسلوں کو فحاشی اور نشے جیسی دلدل میں دھکیل دیا ہم سے۔ہمارا باوقار نظام ،تعلیم چھین کر مخلوط تعلیمی انتظام رائج کر دیا گیا جس کا ہمارے دین میں کوئی وجود نہیں اس طرح ہماری نسلیں دین اسلام کی اصل تعلیم سے دور ہو چکی ہیں مگر ہم خاموش ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سودی نظام ڈنکے کی چوٹ پر چلایا جارہا ہے جو سراسر اللہ اور اللہ کے رسول خاتم النبین” سے کھلا اعلان جنگ ہے مگر ہم اس پر بھی خاموش ہیں۔ناموس رسالت کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ، کوئی گستاخی کا واقعہ ہوتو بھی اس پر بھی ہم انتہائی کمزور سا احتجاج کر کے خاموش ہی ہو جاتے ہیں،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حالت یہ ہے کہ وہا ں انصاف طاقتور اور امیروں کا کھلوناہے جسے بآسانی خریدا جا سکتا ہے تمام تر قوانین صرف غریبوں اور کمزوروں پر لاگو ہیں جبکہ با اثر افراد کوئی بھی گھناونا جرم کرنے کے بعد قانون کی بولی لگا کر مکڑی کے جانے کی طرح پھاڑتے ہوئے نکل جاتے ہیں عدالتوں کے باہر لگے ترازو میں انصاف نظر نہیں آتا.
سوال یہ ہے کہ لیاقت علی خان کے قاتل پکڑے نہ جاسکے ،بے نظیر بھٹو شہید سمیت کئی رہنماؤں کے قاتل آج تک نہیں پکڑے جاسکے، کراچی میں میں ٹارگٹ کلنگ میں قتل ہونیوالے سینکڑوں لوگوں کے قاتل پکڑے نہیں جاسکے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں عرصہ دراز سے ہونیوار خود کش دھماکوں کے نشانات ڈھونڈے نہ جا سکے۔ قاتل تو دور کراچی میں ہونے والے سٹریٹ کرائمز کرنے والے تک گرفتار نہ ہو سکے مگرجب غلامی کرنے پر آئیں تو انکل ٹرمپ کی خدمت میں ان کا مجرم محض کچھ ہی گھنٹوں میں پکڑ کر حوالےکر دیا گیا جس پر آج ٹرمپ پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کر رہا ہے کہ ہمارے انتہائی مطلوب مجرم کو ہمارے حوالے کر دیا گیا ہے۔ہماری بہن پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی آج بھی امریکی قید خانے میں بے حد اذیت ناک زندگی گزار رہی ہے مگر ہم خاموش ہیں۔کسی سابقہ امریکی صدرنے ٹھیک کہا تھا کہ یہ پاکستانی چند پیسوں کی خاطر اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں وقت نے ایک بار پھر آج ثابت کر دیا ہے۔یہ ریاست کے فیصلے ہیں، اداروں کے فیصلے ہیں.حکومتوں کے فیصلے ہیں اور یہ ایوانوں میں بھاشن جھاڑنے والے لیڈرز خواہ وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں سب ایک ہی جھنکار پر ناچتے ہیں جب آواز آتی ہے۔” ہم تم کو ڈالر دے گا ڈالر ! ”
ہم سب پاکستان کی اپنی اور اپنی نسلوں کی تباہی خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں ، بجلی ، گیس ، پانی کے بلوں میں ناجائز بے حد اضافہ، ٹیکس غریب کا گلہ گھونٹ رہے ہیں، روٹی سے لے کر کفن تک ٹیکس ادا کرنے والی قوم کا بچہ پیدا ہوتے ہی مقروض ہیں،مگر ہم خاموش ہیں،ظالموں کے ظلم کو ہماری خاموشی تقویت بخش رہی ہے، یہ کیسا خوف ہے جو ہمیں ہماری تباہی کے ذمہ داروں کا ساتھی بنا رہا ہے۔حضرت علی کا فرمان ہے۔، قبرستان بھرے پڑے ہیں ایسے لوگوں سے جو حق کیلئے اس لیئے کھڑے نہ ہوئے کہ کہیں وہ مارے نہ جائیں ؟لہذا خاموشی کو محفوظ پناہ گا ہ سمجھنا ہمیں نہ صرف خود کا مجرم بنارہا ہے بلکہ یہ بزدلانہ عمل ہی ہماری تباہی کا اصل ذمہ دار ہے ہمیں بلا کسی خوف کے حق کیلئے یکجا ہو کر ظالموں کے ہاتھ کاٹنے کی ضرورت ہے۔








