سینیٹر ضمیر حسین گھمرو کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس کا مقصد "فیملی کورٹس (ترمیمی) بل 2024” پر غور کرنا تھا۔ یہ بل سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی جانب سے 9 ستمبر 2024 کو سینیٹ اجلاس میں پیش کیا گیا تھا۔
اجلاس میں تمام اراکین نے اس امر پر زور دیا کہ طلاق کے مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جائے، کیونکہ یہ کیسز اکثر فیملی کورٹس میں کئی سالوں تک زیرِ التوا رہتے ہیں، جس سے خواتین اور ان کے بچوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے بل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تقریباً 90 فیصد خواتین کے پاس اپنی آزاد آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ عدالتوں میں طویل مقدمات کے دوران متاثرہ خواتین اور بچوں کو مالی سہولت فراہم نہ کرنا ایک سنگین زیادتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عدالت کو پہلے ہی دن عبوری مالی امداد کی رقم طے کرنی چاہیے تاکہ خواتین اور ان کے بچوں کو کم از کم بنیادی ضروریات پوری کرنے کا موقع مل سکے۔
"فیملی کورٹس (ترمیمی) بل 2024” کی اہم شقوں میں شامل ہے کہ عدالت پہلے سماعت کے موقع پر ہی طلاق یافتہ خاتون اور اس کے بچوں کے لیے ماہانہ نان و نفقہ کی رقم مقرر کرے گی۔اگر مدعا علیہ (شوہر) ہر ماہ کی 14 تاریخ تک مقررہ رقم ادا نہ کرے، تو عدالت اس کی صفائی کا حق ختم کر دے گی اور مقدمہ یکطرفہ بنیاد پر فیصلہ کرے گی، بشرطیکہ درخواست گزار نے ثبوت اور دستاویزات پیش کیے ہوں۔وزارت قانون و انصاف کے ایڈیشنل سیکریٹری نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پنجاب میں اس قسم کی ترامیم پہلے ہی نافذ کی جا چکی ہیں، تاہم وفاقی سطح پر قانون سازی کا اختیار وزارت کے دائرہ کار میں ہے۔
کنوینر سینیٹر ضمیر حسین گھمرو نے آئین کے آرٹیکل 35 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شادی، خاندان، ماں اور بچے کی حفاظت کرے۔ انہوں نے کہا کہ طلاق یافتہ خواتین اور بچوں کو مالی مدد کے بغیر چھوڑ دینا ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے۔سینیٹر انوشہ رحمٰن احمد خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی اور بل کی مکمل حمایت کی۔ انہوں نے سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کو سراہا اور زور دیا کہ خواتین کی خودمختاری کے لیے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے۔اجلاس کے اختتام پر سینیٹر ضمیر حسین گھمرو اور سینیٹر انوشہ رحمٰن احمد خان نے بل کی مکمل حمایت کی۔ بل کو متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے متعلقہ کمیٹی کو ارسال کر دیا گیا تاکہ اسے سینیٹ کے ایوان میں پیش کیا جا سکے۔








