تقسیم ہند سے سندھ طاس تک، بھارتی دہشت گردی
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفیٰ بڈانی
برصغیر کی تاریخ کبھی ایک متحدہ سیاسی اکائی کی نہیں رہی۔ مختلف سلطنتوں، ریاستوں اور خود مختار حکومتوں پر مشتمل یہ خطہ ہمیشہ ثقافتی، لسانی، نسلی اور مذہبی تنوع کا مرکز رہا ہے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مرہٹہ کنفڈریسی، سکھ سلطنت، میسور، حیدرآباد اور دیگر چھوٹی بڑی طاقتیں وجود میں آئیں۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی سامراج نے طاقت کے زور پر برصغیر کو اپنے قبضے میں لے لیا تاہم 565 سے زائد پرنسلی اسٹیٹس کو نیم خودمختاری کے ساتھ باقی رکھا۔ "ہندوستان” محض جغرافیائی شناخت تھی، کبھی ایک حقیقی متحدہ قوم یا ملک نہیں تھا۔
1947 میں برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی۔ محمد علی جناح اور ان کے رفقاء نے واضح کر دیا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، جن کی تہذیب، ثقافت، دین اور تاریخ جداگانہ ہے۔ انگریزوں نے تقسیم کے وقت اصول بنایا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریتی علاقے بھارت میں شامل ہوں گے۔ لیکن لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو کہ جواہر لال نہرو کی قربت کا فائدہ اٹھا رہے تھے نے بدنیتی سے گورداسپور جیسے علاقے بھارت کے حوالے کر دیے تاکہ کشمیر پر قبضے کی راہ ہموار ہو۔ اس عمل کی نشاندہی برطانوی مؤرخ الیسٹر لیم نے اپنی کتاب "Kashmir: A Disputed Legacy (Alastair Lamb, 1991)” میں بھی کی ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ
"The transfer of Gurdaspur to India was a political decision to enable access to Kashmir, and not an objective boundary demarcation.”
پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی ریاستوں میں قلات، مکران، خاران، لسبیلہ، دیر، سوات، چترال، ہنزہ اور نگر جیسی اہم ریاستیں شامل تھیں، جو اپنی اسلامی شناخت اور جغرافیائی قربت کی بنیاد پر پاکستان کا حصہ بنیں۔اس کے برعکس بھارت نے جوناگڑھ، مناوادر، منگرول اور خاص طور پر جموں و کشمیر میں کھلی جارحیت کا مظاہرہ کیا۔ جوناگڑھ کے نواب مہابت خان جی نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تو بھارت نے فوجی کارروائی کر کے ریاست پر قبضہ کر لیا اور جعلی ریفرنڈم کرایا جس کی کوئی بین الاقوامی حیثیت تسلیم نہیں کی گئی۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 39 (1948) اور 47 (1948) کے تحت کشمیر اور دیگر متنازعہ علاقوں میں غیر جانبدارانہ استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا تھا جسے بھارت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
بھارت کی اس جارحانہ فطرت نے آج بھی اس کے اندر کئی علیحدگی پسند تحریکوں کو جنم دے رکھا ہے۔ پنجاب میں خالصتان تحریک، مشرقی ہندوستان میں ناگا لینڈ، منی پور، میزورم اور آسام کی تحریکیں، جنوبی ہندوستان میں تامل ناڈو کی علیحدگی کی خواہش اور چھتیس گڑھ و جھاڑکھنڈ میں ماو نواز بغاوتیں اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ بھارت محض فوجی طاقت سے اپنی مصنوعی وحدت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
ہیومن رائٹس واچ (HRW) کی رپورٹ "India: Human Rights Challenges” (2022) کے مطابق
"India faces widespread allegations of human rights abuses in regions like Kashmir, Punjab, and the Northeast, where separatist movements are met with disproportionate force and suppression of dissent.”
مودی سرکار جو کہ انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی فکری تربیت یافتہ ہے، نے برسر اقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف منظم دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
آر ایس ایس، جس کے بارے میں بی بی سی نے اپنی تحقیق ("The Men Who Killed Gandhi”, BBC Documentary, 2017) میں کہا
"The ideology that led to Gandhi’s assassination continues to influence India’s political mainstream through organizations like the RSS and its political wing, BJP.”
مودی کے ہاتھ پہلے بھی بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگے ہیں۔ 2002 کے گجرات فسادات جن میں 2000 سے زائد مسلمانوں کا قتل عام ہوا، مودی کی وزارت اعلیٰ میں ہوئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ "India: Justice Denied for Gujarat Riots Victims” (Amnesty, 2012) میں لکھا
"The Gujarat government, under Narendra Modi, failed to protect minority communities and later obstructed justice for victims of the 2002 pogrom.”
اسی پس منظر میں امریکہ نے 2005 میں مودی کا ویزہ منسوخ کر دیا تھا، جیسا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا
"Modi was denied entry to the United States under a provision of the Immigration and Nationality Act which bars entry to foreign officials responsible for severe violations of religious freedom.”
پلوامہ حملہ 2019 میں بھی مودی سرکار کی سازش کی ایک کڑی تھی۔ دی گارڈین (The Guardian, 2020) نے اپنی رپورٹ میں اشارہ دیا کہ
"Pulwama attack was exploited by the ruling party to stir nationalist fervor and distract from domestic economic issues.”
اب ایک بار پھر پہلگام میں فالس فلیگ حملہ کرایا گیا جس کا مقصد بہار سمیت دیگر ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دینا ہے۔ اس حملے کے بعد مودی سرکار نے پاکستان پر الزامات عائد کیے اور ساتھ ہی سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے،سندھ طاس معاہدہ جو 1960 میں صدر ایوب خان اور وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے درمیان ورلڈ بینک کی نگرانی میں طے پایا تھا، پاکستان کو سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر حق دیتا ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ "Indus Waters Treaty: A History” (2015) میں وضاحت کی گئی ہے کہ
"The Indus Waters Treaty is regarded as one of the most successful water-sharing endeavors in the world, surviving wars and hostilities.”
اگر بھارت اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی آبی معاہدوں کی صریح خلاف ورزی ہو گی۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کے مطابق”Weaponization of water resources during conflicts is considered a violation of international humanitarian law and may amount to a war crime.”
پاکستان نے اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور عالمی بینک کو باضابطہ شکایات جمع کرائی ہیں اور واضح کر دیا ہے کہ پانی روکنے کو اعلان جنگ تصور کیا جائے گا اور پاکستان نے اپنی مسلح افواج کو الرٹ کردیا ہے ،محکمہ سول ڈیفنس کو بھی ایکٹیو کردیا گیا ہے ،پاکستانی عوام کی مثالی یکجہتی اور جذبہ جوان ہے اگربھارت نے پاکستان کاپانی بند کرنے یاحملہ کرنے کی حماقت تو اسے ایسا جواب دیاجائے گا جس کے بارے میں مودی سرکار نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا.
بھارت کی تاریخ زبردستی، جارحیت اور بدنیتی پر مبنی پالیسیوں سے بھری پڑی ہے۔ تقسیم کے وقت جوناگڑھ، مناوادر، منگرول اور کشمیر پر قبضے سے لے کر پہلگام فالس فلیگ حملے اور سندھ طاس معاہدے کو توڑنے کی دھمکیوں تک، بھارت اپنے اندرونی بحرانوں سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان دشمنی کو ہتھیار بناتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت واضح ہے کہ اگر بھارت نے پانی روکا یا جنگ مسلط کی تو جنوبی ایشیا ایک تباہ کن جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ پاکستان ایک قدرتی، مستحکم ریاست ہے جو اپنے پانی، اپنے وقار اور اپنی سالمیت کے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ عالمی برادری کو بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔

حوالہ جات (References):
Alastair Lamb, Kashmir: A Disputed Legacy (1991)
United Nations Security Council Resolutions 39 and 47 (1948)
Human Rights Watch, India: Human Rights Challenges (2022)
BBC Documentary, The Men Who Killed Gandhi (2017)
Amnesty International, India: Justice Denied for Gujarat Riots Victims (2012)
U.S. Department of State, Statement on Modi’s Visa Denial (2005)
The Guardian, Pulwama Attack and BJP Strategy (2020)
World Bank, Indus Waters Treaty: A History (2015)
United Nations Environment Programme (UNEP), Water and Armed Conflicts Report (2017)








