ہمارے آباؤ اجداد نے گوروں سے آزادی کی خاطر کون سی ایسی قربانی ہے جو نہ دی ہو اس داستان کو اگر تفصیل میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو نہ جانے کتنے صفحات لکھنے کے بعد بھی مکمل بیان کرنا مشکل ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ سینکڑوں قربانیاں دینے ،اذیتیں اور درد اٹھانے کے بعد حاصل ہونے والی آزادی میں کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ پاکستان کی موجودہ صورتحال دیکھنے کے بعد تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا سفر محض غلامی سے غلامی تک کا ہی ہے۔ 1947 میں جو آزادی انگریز راج سے حاصل کی گئی تھی وہ اب ان کے پیروکاروں کی غلامی میں بدل چکی ہے۔ تاریخ کس طرح سے اپنا دہرا رہی ہے اس کا اندازہ قیام پاکستان سے پہلے جلیانوالہ باغ امرتسر پنجاب میں ہونے والے واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہوا کچھ اس طرح سے تھا کہ اپریل 1919 کو جلیانوالہ باغ امرتسر میں سکھوں کا مذہبی تہوار بیساکھی منانے اور حصول آزادی کی خاطر جلسہ منعقد کیا گیا جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ اس وقت برٹش آرمی کے موجودہ جنرل ڈائر نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولیاں برسانے کا حکم دیا۔ جنرل ڈائر کے حکم پر پر تا بڑ توڑ گولیاں برسائی گئیں اور ایک ہجوم کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ہر وہ آواز دبا دی گئی جو اس ظلم کے خلاف اٹھی لوگوں کی عزتیں اتارنا شروع کر دی گئیں ایسا خوف و ہراس پھیلایا گیا اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ایسی سفا کانہ سزائیں دی گئیں جن کا الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
انگریز بھی بات تو برابری کی ہی کرتا تھا مگر جب بھی کوئی حقوق کے حصول کے لیے آواز اٹھاتا تو جوابی رد عمل انتہائی سنگین ہوتا پاکستان میں بھی اس وقت کوئی انسانی حقوق کسی کو حاصل نہیں ہے ذرا سی تنقید برداشت نہیں ہوتی، اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں عوام کی رائے کا احترام کرنا تو دور کی بات ہے بولنے پر بھی پابندی ہے۔ آوازیں دبا دی جاتی ہیں،
ہمارا عروج یہ تھا کہ خلیفہ وقت سے بھی سوال ہوا تھا کہ اضافی چادر کہاں سے آئی؟
زوال یہ ہے کہ سوال اٹھاؤ گے تو اٹھا لیے جاؤ گے۔
اس ظلم و جبر کے تانے بانے آج بھی انگریز راج سے جڑے ہوئے ہیں۔ نظام تعلیم پر اگر نظر ڈالیں تو پاکستانی نظام تعلیم آج بھی برٹش ایجوکیشن ایکٹ 1835 کو فالو کر رہی ہے۔ جہاں نمبرز کو اہمیت دی جاتی تھی اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اپ اپنی قابلیت سے ٹاپ کر رہے ہیں یا رٹا لگا کر کرتے ہیں۔ یہی سلسلہ آج بھی جاری ہے یونیورسٹیز اور کالجز کے سٹوڈنٹس کو کنسپٹ سمجھنے کے لیے گھر جا کر یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھنا پڑتی ہیں جہاں یہ سٹوڈنٹس اپنا کنسپٹ کلیئر کر رہے ہوتے ہیں وہ تمام تر ویڈیوز 90 فیصد انڈین کی ہوتی ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم بزنس اورینٹ تو دور جاب اورینٹ بھی نہیں ہے کیونکہ یونیورسٹیز اور کالجز میں کوئی ٹیکنیکل یا پریکٹیکل نالج نہیں دی جاتی ہے ۔ ٹیکنیکل نالج کے لیے سٹوڈنٹس کو یا تو کوئی تین چار مہینے کا کورس کرنا پڑتا ہے یا ان پیڈ انٹر ن شپ کرنی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس تمام کامیاب ممالک میں جدید طرز سے سٹوڈنٹس کو پریکٹیکل اور ٹیکنیکل طریقہ کار سے تعلیم دی جا رہی ہے۔ مگر ہمارے نوجوان اسٹوڈنٹس آج بھی برٹش ایجوکیشن ایکٹ 1835 میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ اس سب کے علاوہ وہی پرانا ڈبل سٹینڈرڈ طرز زندگی جس طرح انگریز پر آسائش زندگی گزارا کرتے اور باقی عام عوام نہایت پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے آج بھی پوش علاقوں میں جا کر دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی یورپی ملک میں آگئے ہوں،دوسری طرف عام عوام کے علاقے دیکھ لیں جہاں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، جگہ جگہ کھڈ ے، تنگ گلیاں ان میں ابلتے ہوئے گٹر چھوٹے چھوٹے گھر بنیادی سہولیات سے محروم غریب عوام کی پسماندگی کو چیخ چیخ کر ظاہر کرتے ہیں۔ پوش علاقوں میں اور پسماندہ علاقوں میں زمین آسمان کا فرق ایک غیر منصفانہ نظام کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان میں مخصوص طبقہ عوام کے تمام تر حقوق اور وسائل پر قابض ہے۔ جن کی نظر میں انگریزوں کی طرح پاکستانی محض غلاموں سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ 1947 میں حاصل کی گئی آزادی کے بعد بھی عام عوام آزادی کا اصل مزہ لینے سے محروم ہے اور آزادی کس چڑیا کا نام ہے اس بات سے مکمل طور پر لا علم ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ تو جمہوریت ہے نہ اسلامی قوانین کی کوئی پاسداری ہے۔ ایک غیر منصفانہ جبری نظام رائج ہے۔ اس تحریر کو لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ ایک بار پھر عوام کو متحد ہو کر اپنے حقوق چھیننا ہوں گے اور اصل آزادی حاصل کرنا پڑے گی جس کے لیے عوام کا ایک ہونا بہت ضروری ہے۔ یاد رکھیں قران پاک میں اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ انسان کو وہی حاصل ہوتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے اگر اپ عوام اپنی آزادی کے لیے اپنے حقوق کے لیے کوشش نہیں کریں گے تو کوئی آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ جو کرنا ہے آپ نے خود کرنا ہے یہی سبق ایک معروف شاعر کے اس شعر سے بھی ملتا ہے۔
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے
مٹ جاؤ یا قصر پامال کرو
( حبیب جالب)۔