اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر جاری فضائی حملے رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ بدھ کے روز اسرائیلی حملوں میں کم از کم 80 فلسطینی شہید ہو گئے، جن میں درجنوں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں شدید بمباری کی گئی، جہاں رات گئے متعدد رہائشی گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔

جبالیہ میں کی جانے والی بمباری میں 22 بچے اور 15 خواتین سمیت 50 افراد موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ مقامی اسپتالوں میں زخمیوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، جبالیہ اسپتال لائے گئے مزید 9 افراد کی لاشوں میں سے 7 بچے شامل تھے۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ کئی لاشیں مکمل طور پر جلی ہوئی تھیں جن کی شناخت مشکل ہے۔اسرائیلی فوج نے منگل کے روز جبالیہ اور اس سے ملحقہ علاقوں کے رہائشیوں کو علاقے چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ وارننگ کے فوری بعد اسرائیلی طیاروں نے راکٹ داغے۔ اسرائیلی افواج کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے ٹھکانوں پر کیے گئے، تاہم زیادہ تر حملوں کا نشانہ رہائشی علاقے بنے۔

اس سے ایک روز قبل، خان یونس میں واقع یورپی اسپتال کے احاطے میں اسرائیلی فوج نے 9 بنکر بسٹر بم گرائے۔ ان بموں کے پھٹنے سے زمین شگاف ہو گئی، اور اسپتال میں خوفناک تباہی مچ گئی۔ اس حملے میں 28 فلسطینی شہید جبکہ 70 افراد زخمی ہوئے۔

یہ دل دہلا دینے والی صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے سربراہ نے سلامتی کونسل کے ارکان پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں جاری خونریزی کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں صورتحال روز بروز ابتر ہو رہی ہے اور یہ ایک "انسانی تباہی” کے دہانے پر ہے۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریباً 60 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد میں بچے، خواتین، اور عام شہری شامل ہیں۔ اسپتال، اسکول، اور پناہ گاہیں بھی مسلسل اسرائیلی حملوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔غزہ میں جاری اس قتل عام پر عالمی برادری کی خاموشی اور عملی اقدامات کی کمی انسانی حقوق کے اداروں کے لیے ایک سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے۔ فلسطینی عوام کا مطالبہ ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر اسرائیل پر دباؤ ڈالے تاکہ انسانی جانوں کا یہ ضیاع روکا جا سکے۔

Shares: