امریکی میڈیا نے ایک حیران کن دعویٰ کیا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ غزہ سے ایک لاکھ فلسطینیوں کو مستقل طور پر لیبیا منتقل کرنے کے لیے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ اس حوالے سے سابق امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ امریکا نے اس منصوبے کے بارے میں لیبیا کی قیادت سے تبادلہ خیال بھی کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اس منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی آبادکاری کے بدلے ٹرمپ انتظامیہ لیبیا کے منجمد اربوں ڈالر کو بحال کرے گی۔ واضح رہے کہ امریکا نے ایک دہائی قبل لیبیا کے اربوں ڈالر منجمد کر دیے تھے۔ اس سے قبل، امریکی حکومت نے لیبیا کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں، جن میں یہ منجمد رقم بھی شامل تھی۔خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق اسرائیل فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کے حوالے سے ایک اہم کانفرنس 17 سے 20 جون تک اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں منعقد کی جائے گی۔ اس کانفرنس کا انعقاد فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ صدارت میں ہوگا اور اسے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی حمایت حاصل ہوگی۔اس کانفرنس کا مقصد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرپا امن قائم کرنے کے لیے عالمی سطح پر کوششوں کو فروغ دینا ہے۔ فرانس اور سعودی عرب نے اس حوالے سے سرگرم کردار ادا کرنے کا عہد کیا ہے اور عالمی برادری کو اس تنازعہ کے حل کے لیے ایک متحدہ موقف اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔
فروری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور متنازع بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ "ہم غزہ کے مالک ہوں گے، اور اس کا مقصد اس علاقے میں استحکام لانا اور ہزاروں نئی ملازمتیں پیدا کرنا ہے۔”ٹرمپ نے مزید کہا تھا کہ ان کا مقصد غزہ میں طویل المدتی ملکیت حاصل کرنا ہے اور اس علاقے کو ترقی دینے کے لیے فلسطینیوں کے لیے نئی ملازمتیں فراہم کرنا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس اقدام سے غزہ میں امن اور خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی۔