غربت کی رسی سے خودکشی کرنے والے باپ کی بیٹی کے نصیب
ظفریات کتاب کا حقیقت پر مبنی دل سوز مضمون: آسمانی شادی
تحریر: ظفر اقبال ظفر
2020 مجھے ساری زندگی نہیں بھول سکتا۔ اس سال نے انسانیت کو کرونا وائرس جیسی وبا کے امتحان میں ڈالا، جو خود تو نظر نہیں آتی تھی مگر کئی واقعات دکھا کر گئی۔ جب ملک بھر میں لاک ڈاؤن لاگو کر دیا گیا، یہ کہانی ہے ایک ایسے مزدور کی جو روزانہ اپنا کنواں کھود کر پانی نکالتا تھا، یعنی روز کمایا تو کھایا ورنہ فاقہ۔ لاک ڈاؤن کو دوسرا ماہ تھا، عوام گھروں میں قید تھی۔ جن کے گھر وافر راشن اور رقم تھی، وہی بے فکر تھے۔ باقی سبھی خوراک کی خوراک بنتے جا رہے تھے۔

مشکل میں مصیبت کو دُور کرنے والے انسانوں کے جہان کا تو پتہ نہیں، مگر پاکستان، پنجاب کے مسلمانوں نے اپنی دکانوں پر پڑی چیزیں مہنگی کر دی تھیں۔ دورِ حاضر میں یہ مجبوری کا فائدہ اٹھانے والے لوگ حیوانوں کو اشرف المخلوقات ہونے پر کبھی پچھتانے نہیں دیتے۔ نجانے کتنے لاچار، بے بس، غریب انسانوں کو کرونا وائرس کے دور میں موت کا خوف اپنی لپیٹ میں مبتلا کر چکا تھا، مگر یہ کہانی ایک ایسے غریب مزدور کی، جس نے اپنے بچوں کی بھوک مٹانے میں ناکامی کا یہ حادثہ پیش کیا کہ شہر کے بیچ میں ایک درخت پر پھندہ بنا کر جھول گیا۔

اس کی تصویریں سوشل میڈیا پر دیکھیں تو رُوح کانپ اُٹھی۔ قریبی شہر کا واقعہ تھا۔ میں بھی دو بچوں کا باپ ہوں، اور باپ کے حساس دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دن اس خوفناک موت کا شکار ہونے والے باپ کے گھر پہنچا۔ایک چھوٹا سا گھر، جس کی کچی دیواریں اور چھت اس میں رہنے والوں کے حالات بیان کر رہی تھیں۔ بیوہ اپنی بچیوں کو آغوش میں لیے خون کے آنسو بہاتی ہوئی کہہ رہی تھی: بیٹی کا رشتہ طے کیا تھا، اس کے سسرالیوں کو گمان تھا کہ باپ جہیز میں کچھ نہ کچھ تو ضرور دے گا، مگر اب وہ بھی دامن چھڑواتے نظر آ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ روز میں شادی سے انکار کر دیں،مجھ سے کچھ بولا نہ گیا اور اگلے نقصان کا اعلان سن کر دُکھی سا لوٹ آیا۔

کسی غیبی طاقت نے مجھے ان کے لیے کوشش کرنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے اپنے ایک بیرون ملک مقیم کزن سے مدد کی بات کی تو اس نے مجھے بیس ہزار روپے بھیجے۔ کچھ رقم میں نے اپنے شافعِ محشرؑ کے غلام مسیحا سے حاصل ہونے والی شامل کی اور مزید کے لیے بے قرار ہو گیا۔روز میرا دل مجھے کسی نیلام گھر جہیز والے کے پاس پہنچنے کو مجبور کرتا اور میں سوچتا کہ معمولی سی رقم سے جہیز کا سامان متاثرہ گھر میں کیسے پہنچ سکتا ہے، مگر مجھے چلانے والی طاقت نے جہیز مارکیٹ جانے پر مجبور کر دیا۔

بندے کی جیب میں پچاس ہزار ہو اور دو، ڈھائی، تین لاکھ کا سامان لینے چلا جائے، ظاہری طور پر تو یہ بے وقوفانہ جرات ہے، جس کا نتیجہ شرمندگی کے سوا کچھ نہیں، مگر یہ جو صاحبِ حیثیت لوگ ہوتے ہیں، ان کو قدرت اپنے کسی بندے کی مدد کے لیے صاحبِ دل بھی کر لیتی ہے۔میں دکانوں کے آگے سے گزر رہا ہوں اور میری نظریں دکان میں سامان نہیں، انسان تلاش کر رہی تھیں۔ خدا کی حکمت سے واقفیت کا پہلو بھی سن لیجئے: مالک خوبصورت روحوں پر خوبصورت چہرے سجاتا ہے۔ ہمارا واسطہ کئی ایسے افراد سے پڑتا ہے جن کی شکل دیکھ کر عقل محبت کے احساس کا پتہ دیتی ہے، اور کئی ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے ہمارا بگاڑا بھی کچھ نہیں ہوتا، اور وہ ہمیں اچھے بھی نہیں لگتے، یعنی نظریں کئی چہروں کو روح کے فیصلے پر چھوڑ دیتی ہیں اور کئی چہرے دل کے فیصلے میں آ جاتے ہیں۔

ایسے ہی میں ایک دکان مالک بزرگ انسان، گورا چہرہ، سفید داڑھی، سفید لباس، ہونٹوں پہ تبسم، نگاہوں میں مہربانی — ہماری نظریں ملتے ہی توجہ کا جذبہ اجاگر ہوا۔
میں ان کی طرف کھنچا چلا گیا، اور انہوں نے مجھے اپنی طرف آتے ہی ملازم کو کرسی لانے کا پیغام دیا۔میں قریب پہنچا تو کرسی مجھ سے پہلے پہنچ گئی۔ میں نے سلام کیا۔ جواب دیتے ہی "تشریف رکھیے” کا اشارہ زبان اور ہاتھ پر اتر آیا۔میں کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا کہ بات کیسے اور کہاں سے شروع کروں۔ وہ میرا چہرہ دیکھتے رہے۔ میں نے ہمت جمع کرکے کہا: محترم، میں گاہک نہیں، خدا کا پیغام ہوں جو آیا نہیں، بھیجا گیا ہوں۔

پھر موبائل سے وہ غریب مزدور کی پھانسی لینے والی تصویر سامنے کرتے ہوئے واقعہ بیان کیا کہ میں حادثے کے بعد اس کے گھر گیا تھا۔ اس کی بیوی اور بچیاں اپنی زندگی کا خدا سے اس بات کا شکوہ کر رہی تھیں کہ اس دور میں کیوں پیدا کیا، جس میں انسان تو ہیں، مگر انسانیت نہیں بستی۔کاش ہمارے ہاں ہمسایوں کے حالات سے باخبر رہنے کی روایت زندہ ہوتی تو ہمارا باپ عزتِ نفس کی رسی کو اپنے گلے کا ہار بنا کر انسانوں کے جہاں سے روانہ نہ ہو جاتا، اور چوک میں پھندا لینا یعنی انسانوں میں انسانیت جگانے کی کوشش تھی، ورنہ مر تو وہ گھر کی چار دیواری میں بھی سکتا تھا۔

اُس بزرگ بندے کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے شروع ہوئے، کہنے لگا: "ہمیں قدرت کا کیا کام کرنا ہے؟”میں نے کہا "اس کی ایک جوان بچی ہے جس کا رشتہ طے کر کے گیا تھا، اب وہ لوگ جہیز کے سامان کے نہ ملنے کی وجہ سے رشتہ توڑ سکتے ہیں۔ اگر کچھ سامان میسر آ جائے تو ہم مرنے والے کو تو نہیں بچا سکے، مگر گھٹ گھٹ کر زندگی اور حالات کو کوسنے والی ایک بچی کا گھر بسنے سے پہلے اُجڑ جانے سے بچا سکتے ہیں۔”
اور وہ رقم جو میرے پاس تھی نکالتے ہوئے ان کی طرف بڑھا دی۔انہوں نے وہ رقم گنی بھی نہیں اور ملازموں کو بلا کر کہا: "جو سب سے اچھا جہیز کا سیٹ پڑا ہے وہ گاڑی میں لوڈ کرو اور چائے کے لیے آرڈر دو، کہ اللہ کا قاصد ہمارا مہمان بنا ہے۔”

میں اپنی خود غرضی کی غلاظت سے بھری اوقات دیکھتے ہوئے رو پڑا کہ مالک نے کیسا کام لیا جس نے مجھے انسانیت کا ترجمان بنا دیا۔ بس ایک عیب چھپانے والی رحمت کی چادر تھی، جس نے میرے کردار کو انمول بنایا ہوا تھا۔سامان لوڈ ہوا تو اس بزرگ بندے نے گاڑی ڈرائیور کو کرایہ دیتے ہوئے کہاکہ "کسی سے کوئی پیسوں کا مطالبہ نہ کرنا اور ان صاحب کے ساتھ چلے جاؤ، جہاں یہ کہیں سامان چھوڑ آنا۔”

میرے پاس اس بزرگ بندے کا شکریہ ادا کرنے کے الفاظ نہیں تھے، مگر اس کا جواب قدرت خود ہی اسے دے گی۔میں گاڑی والے کے ساتھ بیٹھا اور ہم متاثرہ گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ میں دل میں اُس بیوہ ماں کی کیفیت کو محسوس کرکے اشک بہا رہا تھا کہ جب اُس بچی اور ماں کو معلوم ہوگا کہ قدرت نے اُن کی رُوح کا ایک بڑا بوجھ ہلکا کر دیا ہے، تو ان کی کیفیت کیا ہوگی۔

مجھ سے یہ منظر دیکھا نہ جائے گا۔ مالک ہمت عطا کرے گا۔

ہم دو گھنٹے بعد اس متاثرہ گھر کے دروازے پر پہنچے، دستک دی، اندر سے بچی کی آواز آئی: "کون؟”
"بیٹی، اللہ کا بندہ ہوں، اپنی ماں کو کہو وہ جو بندہ دوسرے شہر سے تعزیت کے لیے آیا تھا وہ دوبارہ آیا ہے، ملنا چاہتا ہے۔”
بچی نے اپنی ماں کو بتایا تو اُس نے اندر آنے کی اجازت دی۔
میں اندر گیا، ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھی عورت نے میرا دیکھا ہوا چہرہ پہچان لیا۔

میں نے سلام کیا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر کہاکہ "اللہ نے آپ کی بچی کے لیے سامان بھیجا ہے، اسے قبول کرکے مجھ پر احسان کریں۔”
ان کے ذہن میں آیا کہ کوئی چھوٹی موٹی رقم یا چیز ہوگی جو ابھی میں جیب سے نکال کر ان کے حوالے کروں گا مگر میں نے ان کا ہاتھ تھاما اور انہیں دروازے سے باہر گاڑی کے پاس لے آیا۔
ڈرائیور سے کہا: "ترپال اُٹھائیں۔”

جب جہیز کے سامان پر اس عورت اور بچی کی نظر پڑی تو وہ بے اختیار روتے ہوئے آپس میں گلے لگ گئیں۔

بچی ماں کو کہنے لگی کہ "بابا نے خدا کے پاس جا کر خدا کو منا کر میری زندگی کے آباد ہونے کا سامان بھیجا ہے۔ بھلا ایسا بابا کسی بچی کو نصیب ہوا ہو گا جو مجھے ملا تھا۔”
ہم نے سامان گاڑی سے نکال کر ان کے کمرے میں رکھنا شروع کیا۔

گلی میں ہمسائے دیکھتے گزرتے تو وہ عورت کہتی کہ "میرے میاں نے اللہ کے پاس جا کر ہمارے زخم دکھائے تو رب نے مرہم بھیجا ہے۔”مکمل سامان حوالے کرنے کے بعد اس کی تصویریں بچی کے سسرال والوں کو بھیجیں تو انہوں نے فوری آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ان کے آنے سے پہلے میں وہاں سے بیوہ کو یہ کہہ کر روانہ ہو گیا کہ "یہ میرا نمبر ہے، شادی کی تاریخ طے کر کے بتا دیجئے گا اور اس کا شکریہ بھیجنے والے رب کو ادا کیجئے گا۔”

اُس رات اُس گھر میں لاوارثی کا نہ صرف احساس ختم ہوا بلکہ دُکھ کے جسموں نے خوشی کا لباس بھی پہنا۔ افلاس کے ہاتھوں ننگے ہوتے انسان محفوظ ہو گئے۔
دو روز بعد اُس عورت کا فون آیا کہ بچی کے سسرال والوں نے بچی کو آنکھوں پر بٹھا کر بسانے کا یقین دلایا ہے۔ہم نے ایک ماہ بعد شادی کی تاریخ مقرر کر لی ہے۔
سو لوگ بارات میں آئیں گے۔

مجھے طے شدہ تاریخ کا بتایا گیا تو میں کچھ روز بعد ہی اسی شہر کے ایک شادی ہال کے مالک کے پاس پہنچا اور اسے اپنا تعارف کروا کر سارا ماجرہ سنایا۔وہ شخص اس موت سے باخبر تھا مگر جب میری زبانی بات سنتا گیا تو اس کے دل پر قدرت کا احساس نازل ہوتا گیا۔

وہ میرے جڑے ہاتھ، اشکوں میں بھیگے، منت سے لبریز الفاظ سنتے ہوئے اپنی خاموشی توڑ کر کہنے لگاکہ "بھائی، خدا کا کام ہے، میرے شادی ہال کا مجھ پر کوئی خرچہ نہیں، مگر بارات کا کھانا میری طرف سے ہوگا، ورنہ میں رب کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔””ساری زندگی پیسہ کمایا ہے، آج انسانیت کمانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دوں گا۔”ہم دونوں متاثرہ گھر میں گئے اور اُس بیوہ عورت کو بارات کے سارے انتظامات کے بارے میں بتایا۔

بچی کے دلہن کے لباس سے لے کر عام پہننے کے کپڑے، جوتے اور باقی افراد کے شادی پر پہننے کے جوتے کپڑے جیسی تمام اشیاء سے بے فکر کرکے اُٹھے۔
کچھ روز بعد یہ سامان شادی ہال کے مالک اور اس کی بیوی کے ہاتھوں پہنچ گیا۔
مجھے بتایا اور ساتھ کہا کہ جہیز کے موجود سامان کے علاوہ کسی اور سامان کی ضرورت و فکر نہیں۔
بچی کے سسرال والوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا ہے کہ لڑکے نے باقی انتظام کر لیا ہے۔

شادی ہال کے مالک نے اپنے صاحبِ حیثیت دوستوں کو بتایا تو وقت آنے پر ان میں کسی نے مہندی کا سامان پہنچایا تو کسی نے کھانا۔ہمسایوں کے ساتھ بیوہ عورت کے اپنے اور خاوند کے قریبی عزیز و اقارب نے ان متاثرہ افراد کے سر پر چھوٹی چھوٹی مہربانیوں کی چھت بنا ڈالی۔اگلے دن شادی ہال میں بارات پہنچی، نکاح پڑھایا گیا، شاہی کھانا کھلایا گیا۔

مجھے یقین ہے یہ شادی آسمان والے کے کیمرے میں ریکارڈ کی گئی، اور خودکشی کرنے والے باپ کی رُوح نے آسمان سے رب کی رحمت کے پھول اپنی بچی پر برسا کر رُخصت کیا ہوگا۔کیونکہ دلہن اس موقع پر اپنے بابل کے سینے لگ کر کندھے پہ سر رکھ کے رونے والے احساس میں جکڑی کہہ رہی تھی کہ "یہ وہی شادی ہے جس کا میرا بابل دلاسہ دیا کرتا تھا۔”

میں اس موقع پر جان بوجھ کر شریک نہیں ہوا کہ بچی یا اس کی ماں کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔اُن کی نگاہوں میں اُس احسان کی تصویر نہ اتر آئے جو میں نے کیا ہی نہیں، بلکہ میں تو خود اپنی روح کا سجدہ خدا کے حضور پیش کر رہا تھا، جس نے مجھے آسمانی فیصلے کی تکمیل کا حصہ بنایا۔

ہاں، میں اتنا ضرور کہوں گاکہ اس سوئے ہوئے احساسِ انسانیت کے معاشرے میں دردِ انسانیت کے شعور کو اجاگر کیا جائے، تو کوئی غریب لاچار، بے بس زندگی خودکشی نہ کرے۔
انسان موت کو گلے تب لگاتا ہے، جب معاشرہ انسانیت کو گلے لگانا چھوڑ دیتا ہے۔

Shares: