ملتانی مٹی یا سلیمانی مٹی، حقیقت کیا ہے؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
ملتانی مٹی , ایک ایسا نام جو برصغیر کی دیسی جمالیات، روایتی طب، اور گھریلو بیوٹی ٹوٹکوں میں برسوں سے گونجتا آ رہا ہے۔ اس مٹی کی شہرت صرف جنوبی ایشیا تک محدود نہیں، بلکہ عالمی سطح پر اسے Fuller’s Earth کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور پاکستانی ملتانی مٹی کو خالص اور مؤثر قدرتی علاج تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ جس مٹی کو ہم برسوں سے ملتانی مٹی کہتے آ رہے ہیں، وہ دراصل ملتان کی زمین سے ہے بھی یا نہیں؟ کیا یہ نام اس مٹی کی جغرافیائی اور ارضیاتی حقیقت سے میل کھاتا ہے؟ ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ مٹی کہاں سے نکلتی ہے، اس کی اصل کیا ہے اور اسے ملتانی کہنے کی بنیاد کس تجارتی روایت میں پیوست ہے۔ اس تحقیق کا حاصل صرف ایک نام کی درستگی نہیں بلکہ اپنے وسائل، زمین اور ثقافتی ورثے سے تعلق کا شعوری احیاء ہے۔

ملتانی مٹی حسن و زیبائش کے شوقین افراد کے لیے ایک مانوس نام ہے جو صدیوں سےنہ صرف خوبصورتی کا راز رہی بلکہ ایک جذباتی ورثہ بھی ہے۔ یہ مٹی جو چہرے کی صفائی، جلدی بیماریوں کے علاج اور خوبصورتی بڑھانے کے لیے نسل در نسل استعمال ہوتی آ رہی ہے، ایک دلچسپ تضاد رکھتی ہے۔ اسے "ملتانی” کہا جاتا ہے .جیولوجیکل سروے آف پاکستان، 2017–2020کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ یہ ملتان کی زمین سے کبھی نکالی ہی نہیں گئی۔ اس کا اصل گھر کوہِ سلیمان کے پہاڑی سلسلے اور سندھ کے معدنی ذخائر ہیں جو معدنیات سے مالامال ہیں . یہ ایک تاریخی غلط فہمی یا یوں کہیں کہ ایک تجارتی لیبل کا نتیجہ ہے جو آج تک عوامی شعور میں رچ بس گیا ہے۔

یہ مٹی بنیادی طور پر ڈیرہ غازی خان کے مغرب میں واقع کوہِ سلیمان سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ Sindh Mineral Resources Department, 2020 کے مطابق سندھ کے علاقوں جیسے جامشورو، دادو، خیرپور اور تھرپارکر میں بھی اسی قسم کی مٹی کے ذخائر موجود ہیں.کاسمیٹک سائنس جرنل یوکے 2021کی ایک رپورٹ کے مطابق اس مٹی میں کیلشیم بینٹونائٹ، سلکا، میگنیشیم، آئرن آکسائیڈز اور ایلومینا جیسے عناصر پائے جاتے ہیں جو جلد کے مردہ خلیوں کو صاف کرنے، مہاسوں کو ختم کرنے اور سوزش کم کرنے میں موثر ہیں . اس کی خاکی، زرد یا ہلکی سرخی مائل ساخت، ٹھنڈک اور جاذبیت کی صلاحیت اسے منفرد بناتی ہے۔پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن 2019 کا ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ یہ مٹی چھوٹے پیمانے پر کان کنی کے ذریعے نکالی جاتی ہے اور پھر صاف کر کے ملک بھر کے شہروں، بیوٹی سیلونز، حکیموں اور طب یونانی کے ماہرین کو فراہم کی جاتی ہے ، اسے چہرے کے ماسک، بال دھونے، روایتی ابٹن، اور جلد کو ٹھنڈک دینے والی کریموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ مٹی ملتان سے نہیں آتی تو اسے "ملتانی” کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کا جواب برطانوی دور کی تجارت میں ملتا ہے۔پنجاب آرکائیوز1902 کی رپورٹ کے مطابق ملتان اس وقت جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ کا اہم تجارتی مرکز تھا۔ کوہِ سلیمان اور سندھ سے نکالی گئی مٹی اونٹوں، بیل گاڑیوں اور بعد میں ریل گاڑیوں کے ذریعے ملتان کی منڈیوں تک لائی جاتی تھی۔ وہاں سے یہ پیک ہو کر دہلی، بمبئی، کلکتہ، لکھنؤ اور مدراس جیسے شہروں کو برآمد کی جاتی تھی، چونکہ ملتان اس تجارت کا مرکز تھا، اس مٹی کو "ملتانی مٹی” کا نام مل گیا حالانکہ اس کا ارضیاتی تعلق ملتان سے کبھی نہیں رہا۔کیمبرج ساؤتھ ایشین ہسٹوریکل جرنل 2016 میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق یہ ایک ایسی تاریخی غلط فہمی ہے جو آج بھی زندہ ہے لیکن یہ ہمیں تجارت اور انسانی رابطوں کی طاقت کو بھی دکھاتی ہے کہ کس طرح ایک نام جغرافیائی حقیقت پر حاوی ہو جاتا ہے .

پنجاب یونیورسٹی 2021 کے مطابق ملتانی مٹی صرف ایک کاسمیٹک پروڈکٹ نہیں بلکہ یہ ایک جذباتی رشتہ ہے جو نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کی خواتین اسے نہ صرف خوبصورتی بڑھانے بلکہ خود سے محبت اور اپنی دیکھ بھال کے عمل کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ ماں اپنی بیٹی کو اس مٹی کا استعمال سکھاتی ہے اور یہ عمل ایک روایت بن جاتا ہے جو گھر کی خواتین کو آپس میں جوڑتا ہے۔ جب یہ مٹی چہرے پر لگائی جاتی ہے تو اس کی ٹھنڈک اور نرمی ایک سکون کا احساس دیتی ہے، جو صرف جلدی فوائد سے کہیں بڑھ کر ہے. نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ 2022 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مٹی روایتی طب یونانی، آیورویدک علاج اور حتیٰ کہ دینی تعلیم میں بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ برصغیر میں دینی مدارس اور سکولوں میں تختیوں پر لکھنے کے لیے اس مٹی کا لیپ لگایا جاتا تھا، جو تختی کو ہموار اور دوبارہ استعمال کے قابل بناتی تھی۔ یہ روایت آج بھی سندھ اور جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں موجود ہے جو اس مٹی کو علمی اور ثقافتی ورثے کا حصہ بناتی ہے

جدید سائنس نے بھی ملتانی مٹی کی افادیت کو تسلیم کیا ہے۔انٹرنیشنل جرنل آف کلے سائنس 2020 بتایا کی اس میں موجود ایلومینا اور سلکا جلد سے زہریلے مادوں کو نکالنے، اضافی چکنائی جذب کرنے اور جلد کو ٹھنڈک دینے میں مدد دیتے ہیں. اسے عرق گلاب، شہد، ایلوویرا، یا لیموں کے رس کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اس کی افادیت بڑھے۔ مثال کے طور پر خشک جلد کے لیے اسے کچے دودھ اور زیتون کے تیل کے ساتھ ملا کر لگایا جا سکتا ہے جبکہ چکنی جلد کے لیے ایلوویرا اور لیموں کا رس شامل کیا جا سکتا ہے۔ جھریوں والی جلد کے لیے انڈے کی سفیدی اور پھٹکری کا پاؤڈر ملا کر ماسک بنایا جا سکتا ہے۔

عالمی مارکیٹ میں بھی پاکستانی ملتانی مٹی کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ پاکستان ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے مطابق 2023 میں اس کی برآمدات میں 18 فیصد اضافہ ہوا جو اس کی بین الاقوامی مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے . تاہم مارکیٹ میں کیمیکل ملاوٹ والی مٹی کی موجودگی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے، جس سے صارفین کو نقصان کا خطرہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اس کی اصل کانوں کی حفاظت اور تصدیق شدہ لیبلنگ کو یقینی بنائے۔

ملتانی مٹی کی کہانی صرف اس کی معدنی ساخت یا خوبصورتی کے فوائد تک محدود نہیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیں ہماری زمین، تاریخ اور ثقافت سے جوڑتی ہے۔ اس کا نام "ملتانی” ہونا ایک تاریخی مفروضہ ہے لیکن یہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ کس طرح تجارت اور انسانی رابطوں نے ہماری شناخت کو تشکیل دیا۔ یہ مٹی ہر اس عورت کے لیے ایک جذباتی تحفہ ہے جو اسے اپنے چہرے پر لگاتی ہے، ہر اس ماں کے لیے جو اپنی بیٹی کو یہ روایت سکھاتی ہے اور ہر اس شخص کے لیے جو اپنی زمین سے لگاؤ محسوس کرتا ہے۔ یہ صرف ایک قدرتی عنصر نہیں بلکہ ہماری ارضیاتی، ثقافتی، تجارتی اور علمی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کی اصل جغرافیائی شناخت کو بحال کرنا ایک علمی فریضہ ہے اور اس کے لیے ہمیں اسے ایک نیا نام دینا چاہیے۔ "سلیمانی مٹی” اس کا بہترین متبادل ہے جو اس کی اصلیت ڈیرہ غازی خان کے کوہِ سلیمان اور سندھ کے معدنی ذخائر کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔

یہ مٹی صرف جلد صاف کرنے والی خاک نہیں بلکہ ہماری زمین کی وہ معدنی گواہی ہے جو پہاڑوں کے دامن سے اُٹھ کر بازاروں کے جھمیلوں میں اپنی اصل کھو بیٹھی تھی۔ ملتانی مٹی کو سلیمانی مٹی کہنا صرف ایک جغرافیائی اصلاح نہیں بلکہ ایک تہذیبی فخر کی بازیابی ہے۔ اس نام کی درستی ایک تاریخی غلط فہمی کو ختم کر کے ہمیں اپنے اصل ورثے سے جوڑتی ہے، اس سچ سے جو کوہِ سلیمان کے دل میں پوشیدہ ہے اور سندھ کے پہاڑوں کی گواہی دیتا ہے۔ ملتان کا کردار اس میں محض ایک تجارتی مرکز کا تھا اور وقت آ چکا ہے کہ ہم مٹی کو اس کی اصل شناخت لوٹائیں۔ سلیمانی مٹی کا نام اپنانا نہ صرف اس خطے کے وسائل کا اعتراف ہے بلکہ ان پہاڑی باسیوں کی محنت اور شناخت کا احترام بھی ہے جنہوں نے صدیوں سے اس معدنی خزانے کو دنیا تک پہنچایا۔ یہ مٹی ہماری زمین کی خاموش صدا ہے، جو کہتی ہے کہ میرا نام وہی ہو جو کوہِ سلیمان کی چھاتی سے نکلے، نہ کہ وہ جو کسی منڈی کی تجارتی چالاکی نے گھڑ لیا ہو۔

Shares: