سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو گا
تحریر:عبداللطیف
ہر سال 31 مئی کو دنیا بھر میں تمباکو نوشی کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں تمباکو کے نقصانات سے متعلق شعور بیدار کیا جا سکے۔ یہ دن ایک
موقع ہے جب ہم اجتماعی طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ تمباکو سے نجات صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بھلائی کا ذریعہ ہے۔

اس سال ایک اہم سوال یہ ہےکہ "کیا سگریٹ پر بھاری ٹیکس لگانا درست ہے؟ کیا یہ غریب عوام پر بوجھ بنے گا یا ان کی صحت کے تحفظ کا ذریعہ بنے گا؟”

بظاہر یہ اعتراض درست معلوم ہوتا ہے کہ ٹیکس بڑھنے سے سگریٹ کی قیمت میں اضافہ ہوگا، جو غریب طبقے کی پہنچ سے اسے دور کر دے گا۔ لیکن یہی بات دراصل اس پالیسی کی کامیابی کی دلیل ہے۔ جب کوئی چیز مہنگی ہو جائے تو اس کا استعمال قدرتی طور پر کم ہو جاتا ہے، خاص طور پر نچلے طبقے میں، جو عموماً تمباکو نوشی سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے سے نہ صرف تمباکو نوش افراد کی تعداد میں کمی آتی ہے، بلکہ نوجوانوں میں اس کی شروعات روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ یہ ٹیکس صحت کو بہتر بنانے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے، جو کہ طویل المدت میں غریب عوام کو بیماریوں، علاج کے اخراجات اور وقت سے پہلے موت سے بچاتا ہے۔

یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ حکومت کو جو آمدنی تمباکو ٹیکس سے حاصل ہوتی ہے، اسے اگر صحت کے شعبے، تمباکو نوشی کے خلاف آگاہی مہمات اور علاج کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ پوری قوم کے لیے ایک سرمایہ ثابت ہو سکتی ہے۔

لہٰذا، "سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو گا” یہ اعتراض نہیں، بلکہ تمباکو نوشی کی روک تھام کی ایک کامیاب حکمتِ عملی ہے۔ اگر ہم واقعی غریبوں کی فکر کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی صحت کے محافظ بنیں، نہ کہ سگریٹ تک ان کی آسان رسائی کے وکیل۔

آئیے! اس عالمی دن پر یہ عہد کریں کہ ہم صحت کو ترجیح دیں گے، اور ایسی پالیسیوں کی حمایت کریں گے جو آنے والی نسلوں کو تمباکو کے زہر سے بچا سکیں۔

Shares: