یوں تو بلوچستان ازل سے کئی طرح کی سازشوں کی وجہ سے بد امنی کا شکار رہا مگر 2013 میں جب سی پیک کا آغاز ہوا تب سے لے کرآج تک مسلسل بدترین دہشت گردی کی آگ بلوچستان کو اپنی خوفناک لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ جس کی وجہ سے مقامی افراد سب سے زیادہ اذیت میں مبتلا ہیں۔ بلوچستان کے موجودہ حالات نہایت گھمبیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں ،بلوچستان میں بھارت دہشت گردی پھیلا رہا، اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں، کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری سب سے بڑا ثبوت ہے، غیر ملکی عناصر کی فنڈنگ کیوجہ سے بلوچستان میں دہشت گردی ہو رہی ہے،بلا شبہ یہ بات درست ہے مگر ہم اس حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتے کہ بلوچستان کے موجودہ انتہائی خراب حالات کہ ذمہ دار پاکستان کے مخالفین کے علاوہ خود ریاست پاکستان کی کوتاہیاں اور ناقص حکمت عملی بھی ہے۔ جن میں سے سب سے بڑی وجہ بلوچوں کے مطالبات اور ان کی فریاد کو رد کرنا اور دھتکارنا ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد بھی ایک اہم ایشو ہے، ابھی تک بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں لاپتہ افراد ہی ملوث نکلتے ہیں، تاہم لا پتہ افراد کے معاملے میں ریاست پاکستان کو بہترین حکمت عملی اپنانی چاہیے اور ان افراد کا ٹرائل کورٹ میں چلانا چاہیے انہیں عدالتوں میں پیش کرنا چاہیے ان میں سے جو کوئی دھشت گردی میں ملوث پایا جائے اسے آئین اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ جو کوئی ایسی کسی کاروائی میں ملوث نہیں پایا جاتا اس کو رہا کیا جائے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ وہ باشعور اور جمہوریت پسند لوگ ہیں جو جنوری 1965 میں فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ جس وقت فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف لڑ رہی تھیں تو خیر بخش مری فاطمہ جناح کے چیف سیکیورٹی گارڈ تھے۔ اسی طرح غوث بخش بز نجو خضدار کے علاقے میں پولنگ کے عمل کے انچارج تھے۔ لہذا اس بات کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان میں نازک صورتحال کو سنبھالنے اور دہشت گردی جیسے معاملے سے نپٹنے کے لیے مضبوط جمہوری نظام کا قائم ہونا ضروری ہے جس میں شفاف انتخابات کے ذریعے ایسے عوامی نمائندے کو لایا جائے جو عوام کے مسائل سنے اور انہیں حل کرے۔ بلوچوں کی فریاد سنی جائے ان کے درد کا مداوا کریں۔ قدرتی ذخائر اور معدنیات کے حوالے سے شروع کیے جانے والے پروجیکٹس ،اس حوالے سے پاس کیے جانے والے بلز اور بنائی جانے والی پالیسیاں پبلک کی جائیں تاکہ مقامی افراد کو معلوم ہو سکے ۔ معدنیات سے مستفید ہونا مقامی افراد کا پہلا حق ہے انہیں اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ حل کرنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ لہذا ہماری گزارش ہے کہ بلوچستان کے معاملے کو سنجیدگی ،عقل و تفہیم سے لیں ان کے مطالبات سنیں ان پر غور کریں۔ وہ وعدہ نبھائیں جو حکومت پاکستان نے الحاق کے وقت بلوچیوں سے کیا تھا اور بڑھتی ہوئی نفرتیں کم کریں ایسے حالات نہ پیدا کیے جائیں جن سے ہمارے دشمن فائدہ اٹھائیں اور ہمارے اپنوں کو ہی ہمارے خلاف کھڑا کریں۔ یاد رکھیں پاکستان کی ترقی بلوچستان کی ترقی سے جڑی ہوئی ہے۔