پاکستان کا ایٹمی پروگرام، یوم تکبیر سے بنیان مرصوص تک
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفٰی بڈانی
28 مئی 1998 کو چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکوں کی گونج نے پاکستان کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ یہ یوم تکبیر کا دن تھا، جب پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنا۔ اس دن شہید ذوالفقار علی بھٹو کا خواب حقیقت بن گیا، میاں نواز شریف کا عزم فتح یاب ہوا، اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سائنسی کاوشوں نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنیان مرصوص عطا کی۔ یہ صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں تھی بلکہ قومی غیرت، خودمختاری اور عالم اسلام کے لیے فخر کا لمحہ تھا، جس نے بھارت کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملایا اور خطے میں طاقت کا توازن بحال کیا۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس وقت وجود میں آیا جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1965 میں قومی اسمبلی کے خطاب میں اعلان کیا کہ اگر بھارت ایٹم بم بنائے گا تو ہم گھاس کھائیں گے، لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے (قومی اسمبلی کے ریکارڈز کے مطابق بھٹو نے 1965 میں اپنے خطاب میں ایٹمی پروگرام کی ضرورت پر زور دیاتھا)۔ ان کے اس وژن نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور پاکستانی قوم کو اپنی سلامتی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عزم دیا۔ برسوں بعد جب 11 مئی 1998 کو بھارت نے پوکھران میں ایٹمی دھماکے کیے (دی ہندو کی 11 مئی 1998 کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے پوکھران میں ایٹمی تجربات کیے) تو خطے میں طاقت کا توازن بگڑ گیا۔ بھارت نے نہ صرف اپنی ایٹمی صلاحیت کا مظاہرہ کیا بلکہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر فوج جمع کر کے پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کااعلان کردیا۔ بھارتی سائنسدانوں نے تکبر سے دعویٰ کیا کہ جامع ایٹمی پابندی معاہدہ (CTBT) صرف کمزور ممالک کے لیے ہے (ٹائمز آف انڈیا کی 12 مئی 1998 کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سائنسدانوں نے CTBT کو مسترد کیا)۔ اس گھمنڈ نے پاکستانی عوام کے جذبات کو بھڑکایااور پورے ملک سے مطالبہ اٹھا کہ پاکستان بھارت کو منہ توڑ جواب دے۔ عالم اسلام کے پاکستان دوست حلقوں نے بھی اس کی پرزور حمایت کی۔

اس نازک موڑ پر پاکستان کو مغربی دنیا سے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔ دی نیویارک ٹائمز کی 15 مئی 1998 کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے براہ راست رابطہ کیا اور خبردار کیا کہ ایٹمی دھماکوں کی صورت میں پاکستان کو سخت اقتصادی اور سیاسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بی بی سی کی 16 مئی 1998 کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی قیادت نے بھی پاکستان پر ایٹمی تجربات نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ لیکن وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے قومی وقار اور سلامتی کو مقدم رکھا۔ جیو ٹی وی کے آرکائیوز کے مطابقوزیراعظم میاں نواز شریف نے 1998 میں اپنے خطاب میں کہا کہ ہم اپنی آزادی اور غیرت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ پاک فوج کی قیادت نے اس فیصلے میں بھرپور تعاون کیا اور سول و عسکری قیادت کی یہ یکجہتی پاکستان کی کامیابی کی بنیاد بنی۔

اس عظیم مشن کے مرکزی کردار ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے، جنہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا باپ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی سائنسی مہارت اور قومی جذبے سے اس پروگرام کو کامیابی تک پہنچایا۔ ڈان اخبار کی 2004 کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے لکھا کہ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز تھا کہ میں نے اپنی قوم کی حفاظت کے لیے کام کیا۔ 28 مئی 1998 کو جب چاغی کے پہاڑوں میں پانچ ایٹمی دھماکوں کی گونج بلند ہوئی تو پورا پاکستان خوشی سے جھوم اٹھا۔ یہ لمحہ صرف ایک تکنیکی کامیابی نہیں تھا بلکہ شہید بھٹو کے وژن، میاں محمد نواز شریف کے فیصلے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی محنت اور سول عسکری قیادت کے اتحاد کا نتیجہ تھا۔ ڈان اخبار کی 29 مئی 1998 کی رپورٹ کے مطابقوزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نشان پاکستان سے نوازا اور کہا کہ یہ قوم کی طرف سے ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔ اس دن پاکستان نے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ ایک خودمختار اور غیرتمند قوم ہے جو اپنی سلامتی پر کوئی سودا نہیں کرے گی۔

یوم تکبیر کی اہمیت اس وقت مزید واضح ہوئی جب 10 مئی 2025 کو پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی۔ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو بھارت کے جارحانہ عزائم کو روکنا شاید ناممکن ہوتا۔ اسٹریٹجک اسٹیڈیز انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق ایٹمی صلاحیت نے خطے میں دفاعی توازن قائم رکھا اور بھارت کو جارحانہ پالیسیوں پر نظرثانی پر مجبور کیا۔ یہ فتح شہید بھٹو کے اس عزم کی تکمیل تھی کہ پاکستان ہر قیمت پر اپنی آزادی کی حفاظت کرے گا۔ میاں نواز شریف نے عالمی دباؤ کے باوجود قومی مفادات کو مقدم رکھا جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور دیگر سائنسدانوں نے اپنی محنت سے اس خواب کو حقیقت بنایا۔ پاک فوج اور سول قیادت کی یکجہتی نے اس فیصلے کو عملی جامہ پہنایا، جس سے پاکستان آج دنیا کے خودمختار ممالک میں سر فخر سے بلند کر کے کھڑا ہے۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف اس کی اپنی سلامتی کے لیے نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لیے فخر کا باعث ہے۔ یہ عالم اسلام کو پیغام دیتا ہے کہ عزم، اتحاد اور سائنسی ترقی سے کسی بھی دشمن شکست سے دوچار کیاجا سکتا ہے۔ یوم تکبیر سے بنیان مرصوص تک کا یہ سفر ہر پاکستانی کو یاد دلاتا ہے کہ ہماری قیادت نے مشکل حالات میں بھی اپنی غیرت اور خودمختاری پر سودا نہیں کیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا وژن، میاں نواز شریف کا عزم، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سائنسی کاوشیں اور سول عسکری قیادت کی یکجہتی اس بنیان مرصوص کی بنیاد ہیں۔آج دنیا کے افق پر پاکستان کا پرچم شان و شوکت سے لہرا رہا ہے، یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک غیرت مند، خودمختار قوم ہیں جو اپنی مٹی، اپنے وقار اور اپنے نظریے کی حفاظت کرنا جانتی ہے اور دشمن کی ہر سازش کا سینہ تان کر مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔

Shares: