ادب ایک ایسا نور ہے جو دلوں کو منور کرتا ہے، سوچوں کو جلا بخشتا ہے اور معاشروں کو سنوارتا ہے۔ یہی ادب جب قلم سے قرطاس پر اُترتا ہے، تو تہذیبوں کی بنیاد بنتا ہے۔ اور جب لکھنے والے اپنی عزت، تحفظ، اور شناخت کے لیے اکٹھے ہوں تو وہ صرف تنظیم نہیں بناتے، وہ ایک فکری انقلاب کی بنیاد رکھتے ہیں۔آل پاکستان رائیٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن (اپووا) بھی ایسی ہی ایک روشن امید ہے ، جو اہلِ قلم کی خدمت، تحفظ، فلاح اور ترقی کے لیے معرضِ وجود میں آئی۔ اس کے بانی اور روحِ رواں، ایم ایم علی، اس قافلے کے وہ سالار ہیں جنہوں نے نہ صرف لکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم دیا بلکہ ادب کو ادارہ جاتی حیثیت عطا کی۔
ایم ایم علی ، بانی صدر، اپووا
ایم ایم علی کا نام اردو ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ایک کہنہ مشق قلم کار، حساس دل رکھنے والے تخلیق کار اور باہمت تنظیم ساز ہیں۔ ان کی قیادت میں اپووا نے صرف تنظیمی بنیادیں نہیں رکھیں، بلکہ ایک نظریاتی پیغام دیا ہے”ادب زندہ ہے، جب تک اہلِ ادب باوقار ہیں!”
وہ جن کی سوچ میں صداقت کا رنگ ہو
جن کی قیادت میں قلم کو امنگ ہو
وہی ہیں بانی اس کارواں کے، جن کا نام
ایم ایم علی، جن پہ فخر کرے ہر سخن ور کا کلام
ان کا وژن ہے کہ لکھاری، شاعر، ادیب، ناقد، افسانہ نگار، سب کو ایک ایسا ادارہ فراہم کیا جائے جہاں وہ نہ صرف اپنی تخلیقات کو فروغ دیں بلکہ اپنے حقوق کی پاسداری بھی یقینی بنائیں۔ اپووا کی بنیاد اسی وژن کی علامت ہے۔
ملک یعقوب اعوان ، سینئر وائس چیئرمین،
اپووا کی قیادت میں ایک اور معتبر نام ملک یعقوب اعوان کا ہے، جو تنظیم کے سینئر وائس چیئرمین ہیں۔ ان کی شخصیت سنجیدگی، تدبر، اور ادبی وفا کا پیکر ہے۔ وہ لکھاریوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں اور ادیبوں کی بہبود کو ایک مشن سمجھ کر سرانجام دے رہے ہیں۔
یعقوب اعوان ہیں فکر و ادب کا امین
جو لفظوں میں رکھے ہیں خلوص کے نگین
ہو جس کے ساتھ، وفا کا پرچم بلند
وہی تو ہے اپووا کا معتبر کندن
ان کی خدمات تنظیم کے استحکام اور وسعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کا ہر بیان، ہر قدم ادب کے احترام اور تخلیق کار کی عزت کے لیے اُٹھتا ہے۔
سلمیٰ کشم،سینئر نائب صدرخواتین
اردو ادب میں جب ہم نسائی شعور، جمالیاتی احساس، اور فکری بلندی کی بات کرتے ہیں تو چند نام فوراً ذہن میں ابھرتے ہیں، اور ان میں ایک ممتاز، تابناک نام سلمیٰ کشم کا ہے۔ وہ صرف ایک شاعرہ یا ادیبہ نہیں، وہ ایک مکمل فکری دنیا کا نام ہیں؛ ایک ایسا نکھرا ہوا قلم جو لفظوں کو فقط لکھتا نہیں، روح میں اتارتا ہے۔ان کا تعلق قصور کی سرزمین سے ہے ، وہی قصور جو بلھے شاہ کی دھرتی ہے، جہاں ہر سانس میں ادب کی خوشبو ہے، اور ہر گلی میں صوفیانہ جمال بکھرا ہوا ہے۔ اسی دھرتی کی بیٹی سلمیٰ کشم ادب کی اس روایت کی وارث ہیں۔
قصور کی مٹی نے بخشا ہے ان کو رنگِ خیال
ہر لفظ میں رس، ہر سوچ میں اجالا ہے کمال
سلمیٰ ہیں وہ نام، جن کے حرفوں سے
غزلیں مہکیں، نظمیں چمکیں، جذبے بولیں
سلمیٰ کشم کے قلم کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی تخلیقات میں صرف جذبات نہیں، بلکہ گہرا مشاہدہ، زندگی کی جزئیات، کا نچوڑ بھی ملتا ہے۔ وہ اپنے اشعار میں سماج کی اُن پرتوں کو اجاگر کرتی ہیں جنہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں درد بھی ہے، امید بھی، سوال بھی اور جواب بھی۔ وہ اردو ادب میں خواتین کے نمائندہ چہروں میں سے ایک سمجھی جاتی ہیں۔سلمیٰ کشم نہ صرف ایک تخلیق کار ہیں بلکہ ایک فعال ادبی رہنما بھی ہیں۔ اپووا میں ان کا نائب صدر بننا اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ نہ صرف تخلیقی میدان میں ممتاز ہیں بلکہ تنظیمی، فلاحی اور فکری قیادت کی بھی اہل ہیں۔ وہ ان خواتین کی آواز ہیں جو لکھنا چاہتی ہیں، لیکن مواقع کی منتظر ہیں۔
جن کے لہجے میں شائستگی، قلم میں سچائی
جن کے خیال سے جاگے کئی دلوں کی بینائی
وہ سلمیٰ کشم، جو رہنمائی کا چراغ ہیں
اپووا کی زینت، نسائی ادب کی شفاف مثال ہیں
قصور کی دھرتی نے جو گوہر ہمیں عطا کیے ہیں، سلمیٰ کشم اُن میں نمایاں ہیں۔ ان کی تخلیقات مقامی فضا میں جَڑی ضرور ہیں لیکن ان کے اثرات عالمی افق تک جاتے ہیں۔ سلمیٰ کشم ایک خیال کا نام ہے، ایسا خیال جو معاشرے کو بہتر بنانے کی خواہش رکھتا ہے، جو صنفِ نازک کو باوقار انداز میں پیش کرتا ہے، جو ادب کو فقط کتابوں میں قید نہیں کرتا، بلکہ لوگوں کے دلوں میں اُتارتا ہے۔ان کی موجودگی اپووا جیسے ادارے کے لیے باعثِ فخر ہے، اور ان کی تخلیقات اردو ادب کے خزانے میں ایک قیمتی اضافہ ہیں۔اپووا میں ان کی موجودگی اس بات کی غماز ہے کہ تنظیم خواتین اہلِ قلم کو بھی وہی عزت، وقار، اور نمائندگی دے رہی ہے جس کی وہ حقدار ہیں۔
کشیدہ ہر لفظ، ہر مصرع اُن کا جمال
قلم سے نکلے تو ہو جائے حسنِ کمال
وہ سلمیٰ کشم، جو احساس کی ترجمان
ہیں اپووا میں روشنی کی پہچان
آج کے دور میں، جب ادب کو محض مشغلے یا غیر اہم سرگرمی سمجھا جا رہا ہے، اپووا ایک ایسی تنظیم بن کر سامنے آئی ہے جو اہلِ قلم کی عزتِ نفس، ان کی فکری آزادی، اور تخلیقی حیثیت کو معاشرے میں اجاگر کر رہی ہے۔یہ صرف ایک ایسوسی ایشن نہیں بلکہ ایک ادبی انقلاب کی تمہید ہے ایسا انقلاب جو..
ہر لکھاری کو ایک ادارہ جاتی پہچان دے
شاعروں کی آواز کو پلیٹ فارم دے
ادیبوں کی بہبود کے لیے عملی اقدامات کرے
قومی و بین الاقوامی سطح پر اردو ادب کی نمائندگی کرے
نئی نسل کے لکھاریوں کی تربیت، حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرے
اپووا کی قیادت، یعنی ایم ایم علی، ملک یعقوب اعوان، اور سلمیٰ کشم، نہ صرف تنظیمی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں بلکہ ایک مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ مناصب کوئی عہدے نہیں، بلکہ ایک امانت ہیں جو قوم کے اہلِ قلم نے ان کے سپرد کی ہے۔
قلم کے وارثوں کا یہ قافلہ چلے
سچائی، روشنی، وفا کے گیت گائے
اپووا ہو منزل، اتحاد ہو زادِ راہ
ادب کی دنیا میں یہ چراغ جلائے
دعا ہے کہ اپووا کا یہ کارواں بڑھتا رہے، پھلتا پھولتا رہے، اور اردو ادب کو وہ مقام دلوائے جس کا وہ ہمیشہ سے مستحق رہا ہے۔