پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا معیار،بہتری کے لیے تجاویز اور عملی اقدامات
تحریر:سید ریاض جاذب
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ کئی دہائیوں سے اصلاحات کا متقاضی رہا ہے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور تعلیمی نظام کو اس تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ترقی یافتہ اقوام نے تعلیم کے ذریعے ہی معاشی، سائنسی اور سماجی میدانوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اگر پاکستان کو عالمی سطح پر مؤثر اور مضبوط مقام حاصل کرنا ہے تو اسے اپنے تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز ایک جامع حکمت عملی کی صورت میں پیش کی جا رہی ہیں۔
سب سے پہلے نصاب کی باقاعدہ نظرثانی ناگزیر ہے۔ موجودہ دور میں جب دنیا مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، انٹرپرینیورشپ، اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، ہمارے تعلیمی اداروں میں اب بھی پرانے طرز کے نصاب پڑھائے جا رہے ہیں۔ اس لیے نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا، اور رٹے بازی کے بجائے تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیت اور مسئلہ حل کرنے کی مہارتوں کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ضمن میں عالمی جامعات کے نصاب کا جائزہ لینا اور ان کے کامیاب ماڈلز کو مقامی حالات کے مطابق اپنانا سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔
ملک بھر میں یکساں تعلیمی معیار اور نصاب کا نفاذ بھی ایک بڑا قدم ہو سکتا ہے۔ جب مختلف علاقوں اور اداروں میں مختلف نصاب رائج ہوتے ہیں تو اس سے تعلیمی عدم مساوات اور مواقع کی تقسیم میں فرق پیدا ہوتا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے قومی سطح پر یکساں نصاب کی پالیسی نافذ کرنی ہوگی، جس سے تمام طلبہ کو برابر مواقع میسر آئیں گے اور تعلیمی نظام میں ہم آہنگی پیدا ہو گی۔
اساتذہ اعلیٰ تعلیم کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی تربیت اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے جامع پروگراموں کی ضرورت ہے۔ تدریس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز کی تربیت، اور اساتذہ کی تعلیمی اسناد کی تصدیق جیسے اقدامات معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اساتذہ کے لیے بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت اور ریسرچ فیلوشپس کی حوصلہ افزائی کر کے ان کی علمی سطح کو بلند کیا جا سکتا ہے۔
تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دینا کسی بھی اعلیٰ تعلیمی نظام کا مرکزی ستون ہوتا ہے۔ پاکستان میں تحقیق کے لیے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی مسابقتی تحقیقی گرانٹس کی فراہمی، اور یونیورسٹیوں و صنعت کے درمیان روابط کو مضبوط کر کے عملی تحقیق کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ تحقیق کا دائرہ صرف سائنسی موضوعات تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ سماجی، معاشی اور انسانی علوم کی تحقیق بھی اتنی ہی اہم ہے۔ تحقیقی مقالوں کی اشاعت، عالمی جرائد تک رسائی اور پیٹنٹس کی رجسٹریشن پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔
تعلیمی اداروں کے درمیان شراکت داری اور احتساب کے نظام کو مضبوط بنانا بھی ضروری ہے۔ جب ادارے ایک دوسرے کے ساتھ تجربات کا تبادلہ کرتے ہیں، تو معیار خود بخود بہتر ہوتا ہے۔ والدین اور کمیونٹی کی شمولیت سے بھی اداروں کو مثبت فیڈبیک اور سماجی حمایت حاصل ہوتی ہے، جس سے طلبہ کی کارکردگی پر بھی خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ تعلیمی بورڈز اور ایچ ای سی کو اداروں کے سالانہ جائزے کا ایک مؤثر نظام مرتب دینا ہوگا تاکہ بہتری کی راہ ہم وار ہو سکے۔
اعلیٰ تعلیم کو طلب اور روزگار کی ضروریات کے مطابق بنانا وقت کا تقاضا ہے۔ جب فارغ التحصیل نوجوان مارکیٹ کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے تو بے روزگاری بڑھتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے تعلیمی اداروں کو ایسے مضامین اور پروگرامز متعارف کرانے ہوں گے جو عملی میدان میں مؤثر ثابت ہوں۔ انٹرن شپس، انڈسٹری سے براہ راست منسلک کورسز، اور ٹیکنیکل تعلیم کے شعبے کو بڑھاوا دے کر گریجویٹس کو بہتر مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
حکومت، ایچ ای سی، تعلیمی ادارے، صنعت اور دیگر تمام متعلقہ فریقین کو باہم مربوط حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا۔ صرف نصاب کی اصلاح یا اساتذہ کی تربیت کافی نہیں؛ یہ سب پہلو ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں جنہیں یکجا کر کے ہی معیار اور رسائی کو ایک ساتھ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، اور پالیسی سازی میں ماہرین تعلیم کی شمولیت جیسے اقدامات تعلیمی ترقی کے سفر کو تیز کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بہت زیادہ ہے جو کسی بھی قوم کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہوتا ہے، لیکن اگر ان نوجوانوں کو معیاری تعلیم نہ دی جائے تو یہی اثاثہ بوجھ بن سکتا ہے۔ اس لیے تعلیمی نظام کو نوجوانوں کی ضروریات اور صلاحیتوں کے مطابق تشکیل دینا ضروری ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنی ذاتی زندگی سنوار سکیں بلکہ ملکی ترقی میں بھی فعال کردار ادا کر سکیں۔
عالمی درجہ بندیوں میں پاکستانی جامعات کا مقام بہت پیچھے ہے، جس کی ایک بڑی وجہ تحقیق، نصاب اور تدریسی معیار میں کمی ہے۔ اگر ہم بین الاقوامی معیار کی تعلیم کو اپنا ہدف بنائیں تو نہ صرف ہمارے تعلیمی ادارے ترقی کریں گے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بھی بہتر ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شراکت داری کرے تاکہ پاکستانی جامعات کو عالمی سطح کے تحقیقی و تدریسی مواقع میسر آ سکیں۔
یہ تجاویز محض کاغذی نکات نہیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کو روشن بنانے کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان تجاویز کو پالیسی کی سطح پر اپنایا جائے اور ان پر عمل درآمد کے لیے نیک نیتی سے اقدامات کیے جائیں۔