سگریٹ کا پیکٹ، غریب کی جیب میں زہر، قوم کی صحت پر حملہ
تحریر: لائبہ
آج کل جب ہم باہر نکلتے ہیں تو ہر دوسرے مرد، بچے یا بوڑھے کے ہاتھ میں سگریٹ دیکھتے ہیں۔ کچھ عادت سے مجبور ہو کر پیتے ہیں، کچھ غم کو بھلانے کے لیے، کچھ خوشی میں اور کچھ صرف لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے۔ عورتیں اور بچیاں بھی آہستہ آہستہ اس طرف آ رہی ہیں۔
سگریٹ پینا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، خاص طور پر اگر نوجوان نسل کو دیکھا جائے تو، اور کمانے والے غریب طبقے کے لیے تو یہ ایک زہر ہے … پودے خاندان کو تباہ کرنے والی چیز ہے سگریٹ …!!
جن گھروں میں کمانے والا ایک ہے اور پورے گھر کا نظام اُس کی کمائی اور صحت پر انحصار کرتا ہے، اگر وہی شخص سگرٹ نوشی میں خود کو اور اپنے پیسوں کو برباد کرے گا تو ایک اچھا معاشرہ کیسے بن پائے گا؟ ایک خاندان کیسے چل پائے گا؟ معصوم بیٹیوں اور بیٹوں کی تربیت و تعلیم کیسے ہو پائے گی…؟؟؟؟
اگر ……. اس مسئلے کا ایک حل سوچا جائے کہ:
سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا۔!!!
تو کیا واقعی ہمیں مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی؟
حکومت سگریٹ پر ٹیکس لگا کر لوگوں کو سگریٹ سے دور رکھنے کی کوشش تو کرتی ہے، لیکن شاید اس پر عمل نہیں ہو پاتا یا زیادہ دیر اس کا اثر نہیں رہتا۔۔۔!!!
اب یہاں کچھ سوال ہم سب کے ذہن میں آتے ہیں کہ:
سگریٹ پر ٹیکس لگانے سے کیا واقعی غریبوں پر، ان کی صحت پر اور ان کے ذہن پر کوئی اثر پڑے گا؟
کیا ان کے لئے سگرٹ سے دور رہنا بہت مشکل کام ہوگا؟
کیا واقعی غریب لوگوں کو صحت مند اور خوشگوار زندگی گزارنے میں مدد ملے گی۔۔۔؟
اگر ہم اس پر بات کریں تو حکومت کو چاہیے کہ سگریٹ خریدنے پر بھاری ٹیکس لگایا جائے، شہریوں پر فائن لگائے جائیں، ان کو سزائیں دی جائیں۔
جس سے کافی مقدار میں ہمیں رقم موصول ہوگی، جس سے ہم بہت سے کام کر سکیں گے، بہت سے غریب شہریوں کی مدد ہو سکے گی، غریب بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھایا جا سکتا ہے، بیوہ عورتوں کو ماہانہ خرچہ دیا جا سکتا ہے، اور وہ لوگ جن کے خاندان پہلے سے ہی سگریٹ نوشی کی وجہ سے مشکل میں ہیں یا جن کے کمانے والے اس سگرٹ نوشی کی وجہ سے ہی دنیا سے چل بسے ہیں، ان خاندانوں کی مدد بھی ہو سکتی ہے۔
اگر ہم ٹیکس کی بات کریں تو اس کا مقصد صرف شہریوں کو سگریٹ کے نقصانات سے بچانا ہے۔ یوں جب ٹیکس لگے گا تو بہت سے غریب سگریٹ خریدنا کم کر دیں گے۔
اس سے نہ صرف ان کے پیسے بچیں گے بلکہ ان کی صحت بھی بہتر ہو جائے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ شاید یہ عادت بھی ختم ہو جائے۔
جو عقلمند شہری ہیں وہ یہ ضرور سوچیں گے کہ اگر سگریٹ زندگی میں نہیں ہے تب بھی ان کی زندگی چل رہی ہے اور وہ اس عادت کو خود پر حاوی ہونے نہیں دیں گے بلکہ اس کو چھوڑ دیں گے۔
ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ ہمیں شہریوں کے دماغ میں یہ بات بھی ڈالنی پڑے گی کہ اس کے نقصان بہت زیادہ ہیں۔ شہریوں کو ٹی وی پر دکھائی جانے والے اشتہارات، دیواروں پر لگے اشتہارات کے ذریعے سمجھانا بھی ضروری ہوگا۔
ان کو یہ بھی دکھانا ہوگا کہ سالانہ سگریٹ نوشی سے کتنی اموات ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے خاندانوں کو بھی ضرورت ہے کہ وہ بھی ان کے دماغوں میں یہ بات ڈالیں۔
کچھ عرصے میں ہمیں نہ صرف ان کی صحت بلکہ معاشرتی اور معاشی حالات میں بھی تبدیلی نظر آئے گی۔ اور انہی لوگوں میں ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جو واقعی اپنی غلطی کو تسلیم کریں گے۔ یہاں ہماری سوسائٹی کا کام ہے کہ ایسے لوگوں کی تعریف کی جائے، ان کو ایپریشیٹ کیا جائے تاکہ وہ خوشی محسوس کریں اپنے اس قدم پر۔ اور یقینا ایسے ہی لوگ باقی لوگوں کی بھی مدد کریں گے اس عادت کو چھوڑنے میں۔
ایسے بہت سے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ان کو خود پر یقین ہوگا کہ واقعی وہ کسی بری عادت کو چھوڑ بھی سکتے ہیں۔
ٹیکس لگانا ایک بہت اچھا قدم ہوگا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذہن میں تبدیلی لانا بھی ضروری ہے کیونکہ تبدیلی انسان کے اندر ہوتی ہے۔ جب تک ہم اسے باہر نہیں لاتے، کوئی بھی نہیں لا سکتا۔ ذہنی طور پر سب کو تیار کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
ایک اچھی سوچ اور قدم بہت سی تبدیلیاں لا سکتا ہے…
ہم یہ سب ذمہ داریاں ایک ساتھ پوری کریں گے تبھی ایک صحت مند، اچھا اور خوشگوار معاشرہ بنا پائیں گے، اپنے خاندانوں کو اچھی زندگی دے پائیں گے، اور اپنے ملک کی مدد کر سکیں گے، ریونیو جنریٹ کر سکیں گے، قرض اتار سکیں گے۔
پاکستان زندہ باد