سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا
تحریر: محمد رمضان نوشاہی، گوجرانوالہ
تمباکو نوشی صحت عامہ کے لیے ایک عالمی چیلنج ہے، جو خاص طور پر ترقی پذیر اور غریب ممالک کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 50 لاکھ افراد تمباکو سے منسلک بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس وقت ایک ارب سے زائد افراد تمباکو کی لت کا شکار ہیں، جن میں 25 فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں آٹھ جان لیوا امراض میں سے چھ کا تعلق براہ راست سگریٹ نوشی سے ہے، جن میں عارضہ قلب، دمہ، ٹی بی، اور پھیپھڑوں کا کینسر جیسے موذی امراض سرفہرست ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، روزانہ 11 ہزار افراد تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر اس وبا کے خلاف موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2030 تک یہ تعداد بڑھ کر ایک کروڑ سالانہ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ اعدادوشمار ایک خطرناک حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ تمباکو نوشی نہ صرف انسانی جانوں کے لیے زہر قاتل ہے بلکہ معاشرتی اور معاشی ڈھانچے کو بھی تباہ کر رہی ہے۔

سگریٹ نوشی کی لت چھوڑنا ایک مشکل عمل ہے۔ ایک لطیفے میں اس کی شدت کو کچھ یوں بیان کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنے تمباکو نوش دوست سے فخر سے کہا، "تم سے ایک بار سگریٹ نہیں چھوڑی جاتی، جبکہ میں نے تو کئی بار چھوڑی!” یہ محض ایک لطیفہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، 90 فیصد تمباکو نوش اسے چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ناکامی ان کا مقدر بنتی ہے۔ اس کی وجہ نکوٹین کی شدید لت ہے، جو دماغ کو اس قدر جکڑ لیتی ہے کہ چھوڑنے کی خواہش رکھنے والے بھی بار بار ناکام ہو جاتے ہیں۔ اگر حکومتیں اس وبا کے خلاف سنجیدہ اقدامات اٹھائیں، تو لاکھوں زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ سگریٹ نوشی نہ صرف صحت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ مالی طور پر بھی افراد اور خاندانوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ایک عام پاکستانی گھرانے کا بجٹ، جو پہلے ہی محدود ہوتا ہے، سگریٹ کی خریداری پر خرچ ہونے سے مزید دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔ غریب طبقہ، جو روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے، اس لت کی وجہ سے اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ضائع کر دیتا ہے۔

حکومت اگر سگریٹ پر دوگنا ٹیکس عائد کر دے تو اس وبا پر قابو پانے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کی ایک تحقیق کے مطابق، جن افراد کو سگریٹ چھوڑنے کے لیے مالی ترغیبات دی گئیں، ان میں سے بڑی تعداد نے ایک سال کے اندر یہ لت ترک کر دی۔ ٹیکس بڑھانے سے سگریٹ کی قیمت غریب طبقے کی پہنچ سے باہر ہو جائے گی، جس سے نہ صرف اس کی کھپت کم ہوگی بلکہ صحت پر خرچ ہونے والے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں صحت کے شعبے کو پہلے ہی وسائل کی کمی کا سامنا ہے، تمباکو سے متعلق بیماریوں کے علاج پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اگر سگریٹ پر بھاری ٹیکس لگایا جائے تو نہ صرف صحت کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کے فوائد صرف صحت تک محدود نہیں ہیں۔ یہ معاشی اور معاشرتی استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔ غریب طبقہ، جو اپنی آمدنی کا بڑا حصہ سگریٹ پر خرچ کرتا ہے، اس ٹیکس کے نتیجے میں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرے گا۔ مثال کے طور پر، ایک غریب مزدور جو روزانہ 100 روپے سگریٹ پر خرچ کرتا ہے، سالانہ تقریباً 36,500 روپے ضائع کر دیتا ہے۔ اگر سگریٹ کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو وہ اس رقم کو اپنے بچوں کی تعلیم، گھریلو ضروریات، یا صحت پر خرچ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے حکومت شعور بیدار کرنے کی مہمات چلا سکتی ہے، جن میں عوام کو تمباکو کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔ ایسی مہمات خاص طور پر نوجوانوں کو نشانہ بنائیں، جو فیشن یا سماجی دباؤ کے باعث سگریٹ نوشی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

تمباکو نوشی کے خلاف جنگ صرف ٹیکس بڑھانے تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں، مساجد، اور میڈیا کے ذریعے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مساجد کا کردار خاص طور پر اہم ہو سکتا ہے، کیونکہ خطبہ جمعہ کے دوران علماء عوام کو سگریٹ کے شرعی اور صحت کے نقصانات سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح، اسکولوں اور کالجوں میں نصاب کا حصہ بناتے ہوئے طلبہ کو تمباکو کے خطرات سے روشناس کرایا جائے۔ میڈیا پر نشر ہونے والے اشتہارات میں سگریٹ نوشی کے خوفناک نتائج کو دکھایا جائے، جیسے کہ پھیپھڑوں کے کینسر یا دل کے دورے کے مناظر۔ یہ تصاویر لوگوں کے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑتی ہیں اور انہیں اس لت سے دور رہنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے غیر قانونی تجارت کو فروغ ملے گا۔ یہ ایک جائز خدشہ ہے، کیونکہ پاکستان میں پہلے ہی اسمگل شدہ سگریٹ کی مارکیٹ موجود ہے۔ تاہم، اس کا حل سخت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔ سرحدی علاقوں میں چیکنگ کو سخت کیا جائے اور غیر قانونی سگریٹ کی فروخت پر سخت سزائیں دی جائیں۔ اس کے علاوہ، تمباکو کی صنعت سے وابستہ افراد کے لیے متبادل روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ ان کی معاشی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر، تمباکو کی کاشت کے بجائے کسانوں کو دیگر منافع بخش فصلوں کی طرف راغب کرنے کے لیے سبسڈی دی جا سکتی ہے۔

تمباکو نوشی سے انکار زندگی سے پیار کا عکاس ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا:

نشے کی لذتوں نے ہم کو کہیں کا نہ چھوڑا
زندگی کو برباد کر دیا، موت کو قریب کر دیا

یہ شعر تمباکو نوشی کے تباہ کن اثرات کی صحیح تصویر کشی کرتا ہے۔ سگریٹ نہ صرف جسم کو کھوکھلا کرتی ہے بلکہ خاندانوں کو معاشی طور پر کمزور اور معاشرے کو تقسیم کرتی ہے۔ اگر ہم ایک صحت مند اور خوشحال پاکستان چاہتے ہیں تو ہر سطح پر اس وبا کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی۔ سگریٹ پر بھاری ٹیکس عائد کرنا اس جنگ کا ایک اہم ہتھیار ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف غریب کی پہنچ سے سگریٹ کو دور کرے گا بلکہ صحت عامہ کے تحفظ اور معاشی استحکام میں بھی کلیدی کردار ادا کرے گا۔

آخر میں، یہ بات واضح ہے کہ تمباکو نوشی کے خلاف جنگ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر فرد، خاندان، اور ادارے کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانا اس سمت میں ایک اہم قدم ہے، لیکن اس کے ساتھ شعور بیدار کرنے، سخت قوانین نافذ کرنے، اور متبادل معاشی مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم مل کر اس وبا کا مقابلہ کریں تو نہ صرف لاکھوں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں بلکہ ایک صحت مند اور خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

Shares: