تمباکو نوشی کے خلاف ٹیکس کو بطور ہتھیار کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
ہر سال 31 مئی کو دنیا بھر میں "تمباکو نوشی کے خلاف عالمی دن” منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو اس مہلک عادت کے نقصانات سے آگاہ کیا جا سکے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 1.7 لاکھ اموات تمباکو نوشی سے متعلقہ بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال تمباکو نوشی سے 80 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو خود سگریٹ نہیں پیتے بلکہ دوسروں کے دھوئیں کا شکار بنتے ہیں۔

تمباکو نوشی ایک مہلک، مہنگی اور معاشرتی لعنت ہے جو پاکستان سمیت دنیا کے ہر معاشرے کو متاثر کر رہی ہے۔ اس کے خلاف مؤثر اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ اگر ہم آج سے اس کے خلاف بھرپور جہاد کا آغاز کریں تو آنے والی نسلوں کو ایک صحت مند زندگی دی جا سکتی ہے۔

آج کا ہمارا موضوع ہے کہ تمباکو نوشی کے خلاف ٹیکس کو بطور ہتھیار کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ غریب عوام کو اس لعنت سے نجات دلائی جا سکے۔ پاکستان میں اکثریتی غریب طبقہ سگریٹ نوشی کو بطور دوا استعمال کرتا ہے اور اسے ٹینشن کم کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہے، جو سراسر غلط اور غیر صحت مند رویہ ہے۔

تمباکو نوشی کے خاتمے کے لیے آگاہی نہایت ضروری ہے، لیکن پاکستان میں میڈیا اور مختلف محفلوں میں اس کی تشہیر ایک فیشن یا سٹیٹس سمبل کے طور پر کی جاتی ہے، جس کی کوئی مناسب روک تھام موجود نہیں۔ تمباکو مصنوعات کی کھلے عام تشہیر سے نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ویپنگ اور شیشہ کیفے کا رجحان بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے، جسے ایک نیا فیشن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

ملک میں انسداد تمباکو قوانین تو موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد انتہائی کمزور ہے۔ سگریٹ نوشی آج ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے جس کی جڑیں صدیوں پرانی تاریخ میں پیوست ہیں۔ یہ صرف ایک عادت نہیں بلکہ ایک ایسا ناسور ہے جو انسانیت کو آہستہ آہستہ نگل رہا ہے۔ غریب طبقہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں ناقص منصوبہ بندی، سستی اور غیر معیاری تمباکو مصنوعات، اور تمباکو نوشی کی عام مقبولیت شامل ہیں۔

آج تمباکو نوشی کئی مختلف شکلوں میں موجود ہے، جو معاشرتی، جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے تباہ کن ہے۔ نوجوان نسل کو "فیشن”، "دوستی” اور "تفریح” کے نام پر ان لتوں کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔ اس رجحان پر قابو پانے کے لیے قانونی اقدامات، عوامی شعور، والدین کی نگرانی، اور میڈیا کی مثبت مداخلت نہایت ضروری ہے۔

حکومت کے ساتھ ساتھ پبلک سیکٹر، اساتذہ، علما، والدین اور سماجی تنظیموں کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ معاشرتی نظام میں آگاہی کی کمی اور تمباکو نوشی کی غیر ضروری تشہیر ایک سنگین مسئلہ ہے۔

اگر سگریٹ پر ٹیکس بڑھا دیا جائے اور اس کی قیمت دو یا تین گنا ہو جائے، تو امیر طبقہ شاید متاثر نہ ہو، لیکن غریب ضرور متاثر ہوگا۔ وہ یا تو غیر معیاری اور سستی مصنوعات کی طرف جائے گا یا اپنی دیگر ضروریات قربان کر کے اس عادت کو برقرار رکھے گا۔ یہ صورتحال صحت کے مزید بگاڑ اور معاشی بدحالی کو جنم دے گی۔

لہٰذا، صرف ٹیکس بڑھانا مسئلے کا حل نہیں۔ ایک متوازن اور جامع حکمت عملی اپنانا ضروری ہے، جس میں درج ذیل نکات شامل ہوں:

تمباکو نوشی کے نقصانات سے متعلق بھرپور آگاہی مہمات
نشے کی لت چھڑانے کے لیے مفت مراکز کا قیام
نوجوانوں کے لیے صحت مند تفریحی مواقع فراہم کرنا، جو کورونا وبا کے بعد 80 فیصد تک ختم ہو چکے ہیں
تمباکو مصنوعات کی تشہیر پر مکمل پابندی
اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انسدادِ تمباکو تعلیم کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانا

اگر ان تجاویز پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو ہم کافی حد تک تمباکو نوشی کے ناسور سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں اور آئندہ نسلوں کو ایک صحت مند، باوقار اور با شعور معاشرہ دے سکتے ہیں۔

Shares: