سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہو گا
تحریر:سعد یہ عمران لاہور
دنیا بھر میں سگریٹ نوشی ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف انفرادی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ اجتماعی طور پر معیشت، معاشرہ اور خاندانوں کو بھی زوال کی طرف لے جاتی ہے۔ حکومتیں جب سگریٹ پر ٹیکس عائد کرتی ہیں یا اس کی قیمت میں اضافہ کرتی ہیں تو بعض لوگ اسے غریب کے خلاف اقدام سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں سگریٹ مہنگی ہونے سے غریب آدمی، جو پہلے ہی مہنگائی سے تنگ ہے، اس “سکون” کے واحد ذریعے سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر اس پہلو کو صرف معاشی تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ صحت، معاشرتی فلاح اور قومی مفاد کے نقطۂ نظر سے جانچا جائے تو حقیقت اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔
سگریٹ کو عموماً ایک معمولی عادت یا سماجی رواج سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ ایک جان لیوا نشہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سگریٹ نوشی کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دل کی بیماریاں، پھیپھڑوں کا کینسر، ہائی بلڈ پریشر، سانس کی تکالیف اور دیگر خطرناک امراض سگریٹ نوشی سے براہِ راست جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں لاکھوں افراد، خصوصی طور پر غریب اور متوسط طبقے کے لوگ، اس لت میں ملوث ہیں اور علاج کا بوجھ برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ نتیجتاً ایک بیمار گھرانہ، ایک خالی باورچی خانہ اور ایک ٹوٹا ہوا خواب۔
سگریٹ پر ٹیکس صرف سرکاری خزانے میں اضافہ کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکمتِ عملی ہے۔ جب قیمت بڑھتی ہے تو صارف، خاص طور پر وہ جو روزانہ اجرت سے وابستہ ہے، سگریٹ نوشی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کا کہنا ہوتا ہے: “یہ ٹیکس غریب پر ظلم ہے!” لیکن اگر یہ ایک غریب کو اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے سگریٹ چھوڑنے پر آمادہ کر دے تو کیا اسے ظلم کہا جائے؟ یا اس کو ایک احسان؟
فرض کریں ایک مزدور روزانہ 100 روپے کی سگریٹ پیتا ہے، مہینے میں اس کا بل بنتا ہے 3,000 روپے۔ اگر قیمت بڑھنے سے وہ سگریٹ چھوڑ دے، تو یہی رقم بچوں کی فیس، رہائش کا کرایہ یا بیکار دوا کی جگہ صحت مند خوراک میں استعمال ہو سکتی ہے۔
غریب آدمی جب سگریٹ پی رہا ہوتا ہے تو دراصل اپنی محنت کی کمائی کو فنا کر رہا ہوتا ہے۔ مہنگائی، کم آمدنی اور بنیادی ضروریات کے بوجھ کے باوجود وہ اپنا قیمتی پیسہ دھوئیں میں اڑا دیتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق سگریٹ ترک کرنے پر ایک عام مزدور اپنی روزمرہ کی ضروریات بہتر طور پر پورا کر سکتا ہے۔ اس رقم سے بچوں کی تعلیم، تندرست غذائی خوراک اور حفظانِ صحت کی سہولیات ممکن ہو جاتی ہیں۔
غربت اور ذہنی دباؤ کے عالم میں سگریٹ وقتی سکون کا بہانہ بن جاتی ہے، لیکن یہ سکون دھوکہ ہوتا ہے۔ جب قیمت بڑھتی ہے تو بندہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے: “کیا واقعی یہ عادت میرے لیے فائدہ مند ہے؟” پہلے قدم پر ہی نجات کا آغاز ہوتا ہے۔ معاشرتی دباؤ یا فیشن کے تحت سگریٹ نوشی کرنے والے نوجوان بھی مہنگائی کی دیوار سے ٹکرا کر رک جاتے ہیں اور یوں گھریلو ماحول میں خاموش نجات شروع ہو جاتی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں پہلے ہی صحت کا نظام کمزور ہے۔ لاکھوں لوگ سگریٹ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث اسپتالوں کے چکر کاٹتے ہیں، جس سے قومی صحت کا بوجھ اور بڑھ جاتا ہے۔ ٹیکس کے نتیجے میں اگر سگریٹ نوشی میں کمی آئے تو افراد کی صحت بہتر ہوگی، اسپتالوں پر دباؤ کم ہوگا، اور سرکاری صحت کے اخراجات میں نمایاں کمی آئے گی۔
سگریٹ پر ملنے والا ٹیکس اگر شفاف انداز میں صحت، تعلیم اور آگاہی مہمات پر خرچ کیا جائے، سکولوں میں بچوں کو صحت کی تعلیم دی جائے، کمزور طبقے کے لیے اسپیشل ہیلپ لائنز قائم ہوں، اور معاشرے کو سگریٹ نوشی کے نقصانات سے روشناس کرایا جائے، تو اس کا دوہرا فائدہ ہوگا: کم سگریٹ نوشی اور غریب طبقے کی بہبود۔
ہمارے محلے کے “چاچا منور” جو ہمیشہ دھوئیں میں گم رہتے تھے، جب سگریٹ کی قیمت بڑھ گئی تو بولے: “حکومت نے تو سکون پر بھی سیلز ٹیکس لگا دیا!” ہم نے کہا: “چاچا، سکون تو قبر میں ہے، یہ زہر ہے!” یہ مزاحیہ پہلو اس بات کی علامت ہے کہ مہنگائی کس طرح ایک قدرتی رکاوٹ بن جاتی ہے، اور ہمیں صحت مند انتخاب پر مجبور کرتی ہے۔
سگریٹ پر ٹیکس لگانے سے اگرچہ وقتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ غریب کی پہنچ سے سگریٹ دور ہو گئی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک مثبت انقلاب ہے۔ یہ نہ صرف اس کی صحت، کمائی اور خاندان کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ پورے معاشرے کی بھلائی کا باعث بنتا ہے۔ حکومت کا یہ اقدام مالی پالیسی نہیں بلکہ ایک سماجی، صحت مند اور فلاحی حکمتِ عملی ہے۔ اس لیے ہمیں اسے ظلم نہیں بلکہ ایک قابلِ ستائش قدم سمجھنا چاہیے۔
“اگر سگریٹ مہنگی ہو کر غریب کی پہنچ سے دور ہو گئی تو شاید اس کی سانسیں بھی کچھ عرصے کے لیے آزاد ہو جائیں!”