عید، خود کشیاں، اویس لغاری اور شہباز شریف ذمہ دار نہیں؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
عیدالاضحیٰ کا تہوار جو عام طور پر خوشیوں، محبتوں، ملاقاتوں اور قہقہوں کا پیغام لاتا ہے، اس سال پاکستان کے کئی گھروں میں صفِ ماتم لے کر آرہا ہے۔ معاشی بدحالی، بے روزگاری، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکومت کی ناقص پالیسیوں نے عوام کو اس قدر بے حال کر دیا ہے کہ عید سے دو روز قبل ہی خودکشیوں کی خبریں عام ہو رہی ہیں۔ لاہور میں ایک باپ بچوں کے سامنے خود کو آگ لگا رہا ہے، سکھر میں ایک مزدور بیوی کے لیے کپڑے نہ خرید سکنے کے دکھ میں پنکھے سے جھول کر جان دے رہا ہے، کراچی میں ایک ماں بچوں سمیت کنویں میں چھلانگ لگا رہی ہے۔ یہ واقعات محض خبروں کی سرخیاں نہیں بلکہ ریاستی بے حسی کے چیختے ہوئے ثبوت ہیں۔ یہ عید خوشبوؤں سے نہیں، جنازوں کی بو سے مہک رہی ہے۔ نہ قہقہے گونج رہے ہیں، نہ چراغاں ہو رہا ہے ،ہرطرف صرف بین ہیں، کفن ہیں اور قبرستان کی خاموشی۔

رحیم یار خان کے سردار گڑھ میں عبدالرحمان نامی ایک باپ اپنے دو گونگے بیٹوں، 9 سالہ محمد سفیان اور 11 سالہ محمد عمر اور بیٹی آصفہ بی بی کو عید کے کپڑوں کا مطالبہ برداشت نہ کرتے ہوئے گندم کی زہریلی گولیاں کھلاتا ہے اور خود بھی زہر نگل کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ریسکیو 1122 انہیں شیخ زید ہسپتال منتقل کرتا ہے مگر عبدالرحمان اور اس کے دونوں بیٹوں کی زندگی نہیں بچ پاتی ہے۔ آصفہ بی بی اب بھی ہسپتال میں موت و حیات کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اسی طرح اوچ شریف میں محنت کش امداد حسین کا بیٹا ثاقب حسین جو برف کےگولے کی ریڑھی لگا کر گھر چلاتا ہے، غربت اور گھریلو پریشانیوں سے تنگ آ کر زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کر لیتا ہے۔ یہ دل دہلا دینے والے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ غربت اور بجلی کے ظالمانہ بلوں نے پاکستانی عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے۔

غربت اور ظالمانہ بجلی بلوں کی وجہ سے ہونے والی خودکشیوں کی ذمہ داری اویس لغاری کے ساتھ وزیراعظم شہباز شریف پر عائد نہیں ہوتی؟ اویس لغاری کی وزارت توانائی کی پالیسیوں نے پاکستانی عوام کے لیے عید کی خوشیوں کو زہر آلود کر دیا ہے۔ دو میٹروں پر پابندی، نان پروٹیکٹڈ سلیب کی ظالمانہ منتقلی اور ناجائز ڈیٹیکشن بلز نے غریب اور متوسط طبقے کو معاشی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ یہ عید نہیں، قیامت ہے!” عبدالرحمان جیسے باپ کو اپنے بچوں کے لیے عید کے کپڑے نہ دینے کی شرمندگی خودکشی پر مجبور کرتی ہے جبکہ بجلی کے بھاری بل اس جیسے کئی عبدالرحمان کی آمدنی کھا جاتے ہیں۔ اویس لغاری عام پاکستانی کے چولہے بجھا رہے ہیں اور ان کے جھوٹے وعدوں اور دروغ گوئی نے عوام کو صرف مایوسی دی ہے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ اور سرچارجز نے بل ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچا دیے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف جو غیر ملکی دوروں میں ملکی مفاد کے لیے سفارتی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں کیا وہ اس سسکتی ہوئی قوم کی چیخوں سے بے خبر ہیں؟ اویس لغاری کی وزارت وزیراعظم کے دائرہ اختیار میں ہے اور وہ ان کے فیصلوں کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ شہباز شریف نے اویس لغاری کے ظالمانہ اقدامات پر کیا نوٹس لیا؟ ہر موبائل کال کے آغاز میں آنے والی ریکارڈنگ، جس میں شہباز شریف کی آواز میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ "ہم نے بجلی سستی کر دی ہے”،عوام کیلئے بھونڈااور ایک ظالمانہ مذاق بن چکی ہے۔ یہ دعویٰ حقیقت سے کوسوں دور ہے کیونکہ بجلی کے نرخ کم ہونے کے بجائے عوام پر بھاری بلز کی صورت میں بمباری کر رہے ہیں۔ لاہور کی ایک خاتون کہتی ہے کہ "ہمارے گھر کا بل 15 ہزار سے 40 ہزار ہو گیا۔ عید پر بچوں کے کپڑوں کے بجائے ہم قرض مانگ رہے ہیں۔” یہ حالات اویس لغاری کی پالیسیوں اور شہباز شریف کی خاموشی کا نتیجہ ہیں۔

عید جو محبت، قربانی اور خوشیوں کا تہوار ہے، اب غریبوں کے لیے ماتم کا منظر بن رہی ہے۔ عبدالرحمان اور ثاقب جیسے لوگوں کی خودکشیوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اب عوام میں مزید بوجھ برداشت کرنے طاقت نہیں رہی اوپر سے بھاری بلوں کا بوجھ اب جان لیوا بن چکا ہے۔ ایک متوسط طبقے کا گھرانے اس بار قربانی چھوڑ رہے ہیں کیونکہ بجلی کا بل ادا کرنے کے بعد جانور خریدنے کی گنجائش ہی نہیں بچی۔” اویس لغاری کی پالیسیاں نہ صرف غریبوں کی عید چھین رہی ہیں بلکہ متوسط طبقے کو بھی اس حال تک پہنچا رہی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے شرمندہ ہیں۔ شہباز شریف کی حکومت نے ان ظالمانہ پالیسیوں کو روکنے کے لیے کیا کیا؟ کیا وزیراعظم کو یہ خبر نہیں کہ ان کے وزیر توانائی کے فیصلوں نے عوام کو خودکشی پر مجبور کر دیا ہے؟

اویس لغاری کی وزارت توانائی عوام کے لیے لعنت بن چکی ہے۔ ان کے فیصلوں نے نہ صرف معاشی تباہی پھیلائی بلکہ شہباز شریف کی حکومت کو بھی عوامی غیظ و غضب کے شعلوں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوام کا غصہ عروج پر ہے: "اویس لغاری کا اپنا بل چند روپے اور ہمارا 34 ہزار! یہ کیسا انصاف ہے؟” جب ایک باپ اپنے بچوں کو عید پر نئے کپڑے دینے سے قاصر ہوتا ہے تو وہ خودکشی کو ترجیح دیتا ہے۔ عوام کی حفاظت اور حکومت کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔ عوام فوری عمل کا مطالبہ کر رہے ہیں.

بجلی کے نرخوں میں کمی کی جائے، ناجائز ڈیٹیکشن بلز ختم کیے جائیں، دو میٹروں پر پابندی ہٹائی جائےاور ظالمانہ نان پروٹیکٹڈ سلیب نظام کو ختم کیا جائے۔ اگر یہ مطالبات پورے نہ ہوئے تو عید صرف جاگیر داروں اور اشرافیہ کے لیے تہوار بن کر رہ جائے گی اور عام پاکستانی ہمیشہ کے لیے خوشیوں سے محروم ہو جائے گا۔ عبدالرحمان اور ثاقب کی المناک خودکشیوں کو روزمرہ کا واقعہ نہیں بننا چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف، آپ کی ریکارڈ شدہ آواز میں بجلی سستی کرنے کا دعویٰ ایک ظالمانہ جھوٹ ہےاوراس جھوٹ اوردھوکے کا ذمہ دار کون ہے؟

عیدالاضحیٰ جو قربانی اور ایثار کا درس دیتی ہے، اس سال پاکستانی عوام کے لیے ایک امتحان بن گئی ہے۔ اویس لغاری کی پالیسیوں اور شہباز شریف کی خاموشی نے غریبوں اور متوسط طبقے کی عید کی خوشیوں کو چھین لیا ہے۔ عبدالرحمان اور ثاقب جیسے واقعات صرف اعدادوشمار نہیں بلکہ ایک قوم کی چیخ ہیں جو اپنی حکومت سے انصاف مانگ رہی ہے۔ اگر حکومت نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور عوام کو نہ سنبھالا تو عید ہر سال ماتم کا پیغام لاتی رہے گی۔ کیا شہباز شریف اور اویس لغاری اس قوم کے درد کے ذمہ دار نہیں؟ وقت ہے کہ حکومت جاگے، ظالمانہ پالیسیاں ختم کرے، بجلی کے نرخ کم کرے اور عوام کو وہ عید واپس دے جو خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لاتی ہے، نہ کہ جنازوں اور قبرستانوں کی خاموشی کا۔ اویس لغاری کو ہٹائیں اور پاکستانی عوام کو اس معاشی عذاب سے نجات دلائیں، ورنہ یہ خودکشیوں کا سلسلہ عید کے تہوار کو ہمیشہ کے لیے داغدار کر دے گا۔

Shares: