شیرِ دریا، رضا علی عابدی اور پتھر حلوائی
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
یہ1992 کی بات ہے جب راقم الحروف میٹرک کا طالب علم تھاتو اس وقت ذرائع ابلاغ نہایت محدود تھے۔ ٹیلی ویژن چند گھرانوں تک محدود تھا، لیکن ریڈیو ہر گھر کی چوپال کا لازمی حصہ ہوا کرتا تھا۔ رات آٹھ بجے بی بی سی اردو پر خبریں اور مشہور زمانہ پروگرام سیربین نشر ہواکرتاتھا جس میں رضاعلی عابدی کا پروگرام شیر دریا ایک منفرد اور دلکش اضافہ تھا۔ اس پروگرام نے نہ صرف دریائے سندھ کے کناروں کی کہانیاں سنائیں بلکہ ان سے جڑی تہذیبوں، تمدنوں اور ان میں سانس لیتی زندگیوں کو بھی بیمثال انداز میں اجاگر کیاتھا۔

جب رضا علی عابدی نے بی بی سی اردو سروس کے لیے ایک دستاویزی پروگرام ترتیب دیا تو اس کا مقصد دریائے سندھ کے منبع سے لے کر بحیرہ عرب تک اس کے سفر کو ایک زندہ جاوید داستان میں ڈھالنا تھا۔ یہ عظیم دریا ہمالیہ کی بلند گھاٹیوں اور تنگ گزرگاہوں سے ہوتا ہوا پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں میں اترتا ہے۔ اس کے کناروں پر آباد لوگوں کی معاشرت، سماجی تغیرات اور تہذیبی رنگوں کو رضا علی عابدی نے اپنی مسحور کن آواز اور بے مثال اسلوب میں نہایت مہارت سے پیش کیا۔

انہوں نے اس پروگرام کا نام دریائے سندھ کے قدیم تبتی نام سنگھے کھا بب سے مستعار لیتے ہوئے شیر دریا رکھا۔ یہ دریا واقعی شیر کی مانند ہے، جو صدیوں سے ہمالیہ کی برفانی بلندیوں سے جھاگ اُڑاتا، غُراتا اور گرجتا ہوا میدانی علاقوں کی طرف بہتا چلا آتا ہے۔ انڈس ویلی سویلائزیشن ہو یا اپر انڈس ویلی، اس دریا کے کناروں پر پروان چڑھنے والی تہذیبوں کا رنگ جداگانہ ضرور ہے مگر ان کی باہمی ہم آہنگی قابل دید ہے۔

اس پروگرام میں رضا علی عابدی نے لداخ کے بالائی گاؤں اپشی میں پشمینہ بکریوں کے چرواہے محمد علی خان سے لے کر بحیرہ عرب کے قریب شاہ بندر گاؤں کے گل محمد تک 1500 میل کے سفر کو عام انسانوں کے مکالموں، روزمرہ تجربات اور ذاتی کہانیوں کے ذریعے پیش کیا۔ یہ سفرنامہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا اس ڈیلٹا تک پہنچتا ہے جہاں یہ دریا سمندر سے بغلگیر ہوتا ہے۔ اس سفر کے دوران سندھ کے کناروں پر آباد نئی اور پرانی بستیوں کی سیاحت ہوتی ہے اور قدیم و جدید تمدن کے کئی راز وا ہوتے ہیں۔

اردو ریڈیائی سفرناموں کا سہرا بلاشبہ رضا علی عابدی کے سر جاتا ہے۔ بی بی سی اردو سروس میں ان کی مسحور کن اور پراثر آواز نے برصغیر پاک و ہند کے کروڑوں سامعین کو اپنا گرویدہ بنایا۔ شہروں سے لے کر دور دراز دیہاتوں اور پہاڑی علاقوں تک ان کی آواز گونجتی تھی اور سامعین ان کے لفظوں سے بندھی تصویروں میں کھو جایا کرتے تھے۔

رضا علی عابدی نے اپنے اسی پروگرام میں پاکستان کے سرائیکی خطہ کے اہم شہر ڈیرہ غازی خان کی ایک منفرد روایت ہماچا کو متعارف کرایا، جو ایک ایسی بڑی چارپائی ہے جس پر ایک وقت میں دو سو افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ اسے ہماچا اسمبلی کا نام دیا گیا۔ پاکستانی چوک کے قریب ایک رہائشی بلاک میں رکھی یہ چارپائی محلے داروں کے لیے ایک سماجی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی، جہاں روزانہ رات کو چھوٹے بڑے، بوڑھے اور نوجوان جمع ہوتے۔ مذہب، سیاست، محلے کے دکھ سکھ، شادی بیاہ، خوشی و غم کی خبریں سب یہیں شیئر ہوتیں۔ یہ ہماچا نہ صرف ایک چارپائی تھی بلکہ ایک مضبوط سماجی بندھن کی علامت تھی جو لوگوں کو جوڑنے کا ذریعہ بنی ہوئی تھی۔

اسی پروگرام کے ذریعے رضا علی عابدی نے ڈیرہ غازی خان کی ایک عظیم شخصیت حاجی غلام حیدر عرف پتھر حلوائی کو بھی متعارف کرایا۔ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ انہیں پتھر کیوں کہا جاتا ہے تو انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل جب تحریک آزادی زوروں پر تھی، وہ اس تحریک کا ایک سرگرم کارکن تھے۔ پاکستانی چوک پر جلسے جلوسوں میں شریک ہوتے۔ ایک دن ایک جلوس کے دوران ہندوؤں نے حملہ کیا، ان پر تشدد کیا، ان کی چادر اتر گئی، قمیض پھٹ گئی لیکن انہوں نے پاکستان کا پرچم سرنگوں نہ ہونے دیا۔ وہ بے ہوش ہوگئے مگر پرچم زمین پر نہ گرنے دیا۔ اس بے مثال جرات اور استقامت پر انہیں پتھر کا لقب ملا۔

پاکستان بننے کے بعدغلام حیدرپتھر ایک عام حلوائی بن کر رہ گئے، مگر ان کا جذبہ غیر معمولی تھا۔ جنرل محمد ضیا الحق کے دور میں ان کی تحریکِ پاکستان میں خدمات کو باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔بقول ان کے ایک دن اچانک پولیس نے ان کی دکان کو گھیر لیا اور انہیں گرفتار کرکے اسلام آباد کے صدر ہاؤس لے جایا گیا، جہاں صدر جنرل ضیا الحق نے ان سے خصوصی ملاقات کی، ان کی خدمات کو سراہا اور بطور اعزاز انہیں حج پر سعودی عرب بھیجا۔ واپسی پر انہوں نے اہلِ محلہ کو بتایا کہ صدر پاکستان نے انہیں یہ اعزاز عطا کیا ہے۔

شیر دریا جیسے پروگراموں نے نہ صرف دریائے سندھ کے کناروں کی داستانیں عام کیں بلکہ ایسے گمنام ہیروز کو بھی منظرِ عام پر لایا جنہیں تاریخ نے نظر انداز کیا تھا۔ اگر رضا علی عابدی ڈیرہ غازی خان نہ آتے اور بی بی سی پر یہ پروگرام نشر نہ ہوتا تو شاید ہم پتھر حلوائی جیسے مجاہدوں سے ناواقف ہی رہتے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان ہر ضلع اور تحصیل میں تحریک پاکستان کے ان گمنام ہیروز کی خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے باقاعدہ آگاہی پروگرام شروع کرے تاکہ ہماری نئی نسل اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے آگاہ ہو سکے اور ان کی جدوجہد سے سبق لے کر اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنا سکے۔

Shares: