اسرائیلی جارحیت پر ایرانی وار: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
تحریر:سید ریاض جاذب
مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر شعلوں کی زد میں ہے۔ اسرائیل کے جارحانہ حملے اور ایران کی براہِ راست جوابی کارروائی نے خطے کو شدید کشیدگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب ایران نے کھل کر اسرائیل کو نشانہ بنایا اور شاید یہ بھی پہلی بار ہے کہ جب مسلم دنیا اس قدر بٹی ہوئی ہے کہ مؤثر ردعمل سے قاصر نظر آئی ہے۔

ایران کی یہ کارروائی محض ایک فوجی ردعمل نہیں بلکہ ایک واضح علامتی پیغام ہے کہ اسرائیل اب ہر جگہ غیرمحفوظ ہے۔ ایران نے پراکسی جنگ کے طویل دور سے نکل کر براہِ راست تصادم کا راستہ اختیار کیا ہے، جس نے اسرائیل اور اس کے بین الاقوامی پشت پناہوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

درجنوں ایرانی میزائلوں اور ڈرونز نے اسرائیلی فضائی دفاع کو چیلنج کرتے ہوئے تل ابیب، حیفہ اور جنوبی اسرائیل کو ہدف بنایا۔ برسوں سے ایران کو صرف نعرہ باز یا محدود عسکری طاقت سمجھنے والے اب ششدر ہیں۔ ایرانی حملوں نے اسرائیل کو پہلی مرتبہ یہ احساس دلایا ہے کہ جس آگ کو وہ دوسروں کے گھروں تک پہنچاتا رہا، وہ اس کے اپنے صحن تک بھی آ سکتی ہے۔

رپورٹس کے مطابق، کئی میزائل اسرائیل کے حساس فوجی مراکز پر لگے، جن سے نہ صرف فوجی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا بلکہ عوامی سطح پر خوف، غیر یقینی اور ذہنی دباؤ میں بھی اضافہ ہوا۔ دنیا کو ایک بار پھر یہ سبق ملا کہ صرف اسلحہ، ٹیکنالوجی یا امریکی حمایت کسی ریاست کو ناقابلِ شکست نہیں بناتی۔

پاکستان نے اس تمام صورتحال میں جو مؤقف اختیار کیا، وہ عالمی سطح پر محدود سہی، مگر اخلاقی اور اصولی لحاظ سے نہایت اہم ہے۔ اسرائیلی حملے کی کھلے الفاظ میں مذمت اور ایران کے "حقِ دفاع” کی حمایت، کوئی وقتی یا روایتی بیان بازی نہیں بلکہ ایک طویل المدتی اصولی پالیسی کا تسلسل ہے۔ پاکستان ہمیشہ فلسطینی حقِ خودارادیت، علاقائی خودمختاری اور غیرجانب داری کی بنیاد پر اپنی خارجہ پالیسی کو ترتیب دیتا آیا ہے — اور اس موقع پر بھی یہی روش اختیار کی گئی۔

ایران سے پاکستان کی ہمدردی صرف سیاسی نہیں بلکہ جغرافیائی، تہذیبی اور معاشرتی قربت پر بھی مبنی ہے۔ افغانستان اور بھارت کے بیچ ایران وہ واحد ہمسایہ ہے جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نسبتاً مستحکم رہے ہیں، اور یہی رشتہ موجودہ عالمی تناؤ میں ایک متوازن سفارتی حکمت عملی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

تاہم اہم سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا کی اکثریت ایران کے ساتھ کھل کر کیوں نہیں کھڑی؟ خلیجی ممالک، جو کبھی اسرائیل پر سخت مؤقف رکھتے تھے، اب احتیاط، غیر جانبداری یا خاموشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اس کی وجوہات میں حالیہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی، خطے میں امریکی اثرورسوخ، اور ان ممالک کی اندرونی اقتصادی ترجیحات شامل ہیں۔

ایسے میں پاکستان کا دوٹوک مؤقف نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ معاشی مشکلات کے باوجود اس نے بغیر کسی دباؤ کے واضح پالیسی اپنائی — اسرائیلی مظالم کی مذمت اور ایران کی عسکری کارروائی کو دفاع قرار دیا۔ آج جب بیشتر ریاستیں مفادات کے دباؤ میں خاموشی کو ترجیح دیتی ہیں، پاکستان کی اصولی سیاست ایک مثال بن کر ابھرتی ہے۔

اسرائیل اور ایران کی موجودہ کشیدگی کا انجام کچھ بھی ہو، یہ طے ہے کہ مشرق وسطیٰ اب ویسا نہیں رہے گا۔ طاقت کے توازن، سیاسی اتحاد اور سفارتی صف بندیاں ایک نئی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے یہ ایک اصولی مؤقف ہے، دوسری جانب عالمی سفارتی دباؤ۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان اپنی پالیسی میں توازن، حکمت اور استقامت کا مظاہرہ کرے۔

فلسطین، لبنان، شام اور اب ایران سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کا مقصد محض ایک ملک پر حملہ نہیں بلکہ پورے خطے کو غیر مستحکم رکھنا ہے۔ اگر مسلم دنیا اب بھی متحد نہ ہوئی، تو آئندہ جنگ صرف اسرائیل اور ایران کے بیچ نہیں رہے گی بلکہ ہر وہ ملک لپیٹ میں آئے گا، جو انصاف، آزادی اور خودمختاری کی بات کرتا ہے۔

Shares: