ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے۔ اگر ہم اس معاشرے کے پرانے دور کو دیکھیں تو وہ بہت سادہ تھا۔ اس معاشرے میں شرم و حیا تھی۔ لڑکیاں اپنے سروں سے دوپٹے اُتارتے ہوئے شرماتی تھیں، اگر کوئی لڑکی اپنے سر سے دوپٹہ اتار بھی لیتی تو اس کی والدہ ہی سب سے پہلے اس کو ڈانٹیں۔ أس دور میں بچوں کی تربیت ہی اسلام کے اصولوں کے مطابق کی جاتی تھی۔ أس دور میں تربیت ماں باپ مل کر کرتے تھے۔ لیکن آج کے دور میں تربیت موبائل فون کرتا ہے، بہت ہی کم والدین ہیں جو آج کے دور میں اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں وہ بھی اسلامی اصولوں کے مطابق۔ کہنے کو ہم ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں، ہمارا ملک کی بنیاد بھی لا الہ الااللہ ہے لیکن جو بھی آج اس معاشرے میں ہو رہا ہے وہ کہیں سے بھی اسلامی ریاست کا طریقہ نہیں ہے، آج اسلامی معاشرے میں ایسے ڈرامے بن رہے ہیں، جو کہیں سے بھی اسلامی معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے۔

من مست ملنگ جیسے جہاں ایک استاد کو بعد میں شاگرد سے محبت کرتے ہوئے دیکھایا جاتا ہے، جہاں پرسنل لائف کو سرےعام دیکھایا جاتا ہے، جہاں ایک غیر مرد ایک غیر عورت کے ساتھ رومانس کرتے ہوئے دیکھایا جاتا ہے، جہاں غیر مرد ایک عورت کو کپل ڈانس کرتے ہوئے گاڑی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ کیا یہ سب اسلامی معاشرے میں ہوتا ہے؟ کیا یہ اسلامی معاشرے کی پہچان ہے؟ ان انگریزوں نے ہمیں اس حد تک اپنا ذہنی غلام بنایا ہوا ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل کو غلط اور صحیح کا ہی نہیں پتا۔ ہماری آج کی نوجوان نسل جن کے ہاتھوں میں "تلوار” ہونی چاہیے۔ جو اسلام کے علمبردار ہونے چاہیے۔ وہ سر سے دوپٹہ اتارنے کو فیشن کہتی ہے، وہ شلوار کو ٹخنوں سے نیچے رکھنے کو فیشن کہتی ہے، اور لڑکیاں شلوار کو ٹخنوں سے اوپر رکھنے کو فیشن کہتی ہے، وہ غیر محرم عورتوں کے ساتھ ڈیٹ پر جانے کو فیشن کہتی ہے۔ ہماری نوجوان نسل لڑکیوں، لڑکوں کا ایک ساتھ ڈانس کرنے کو فیشن کہتی ہے۔ یعنی جو سبق ہم کو اسلام نے دیا ہے أس کے خلاف ہر کام کرنے کو فیشن کا نام دیا جاتا ہے، ہماری نوجوان نسل ان ناچنے گانے والوں کو اپنا ہیرو سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جرائم کی شرح بھی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بیٹیوں کو بے قصور مار دیا جاتا ہے، ان کا ریپ کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ آج کل کے دور کے کہتے ہیں کہ ان ڈراموں سے پہلے بھی جرائم ہوتے تھے، لڑکیوں کے ساتھ یہ سلوک پہلے بھی ہوتا تھا۔ ہم مانتے ہیں کہ بالکل ہوتا تھا، لیکن اتنا نہیں ہوتا تھا جتنا آج ہوتا ہے، تب کہیں مہینوں، سالوں بعد جا کر ایسی کوئی ایک آدھی خبر سننے کو ملتی تھی، لیکن آج تو ہفتوں بعد نہیں بلکہ روز آئے دن ایسی خبر سننے کو ملتی ہے۔ آئے دن کسی نا کسی لڑکی یا لڑکے کو مار دیا جاتا ہے۔ آج کے جرائم کی شرح تب کے جرائم کی شرح سے بہت زیادہ ہے۔ یہ سب اسی ڈراموں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ آج جو بھی ہمارے معاشرے میں بے حیائی پھیلی ہوئی ہے یہ اسی ڈراموں کی وجہ سے ہوا ہے۔ غیر مسلموں نے کوئی بھی کام کرنا ہو تو پہلے ان کو ڈراموں میں دیکھایا جاتا ہے، پھر بعد میں اصل زندگی میں اس کو معاشرے کا حصے بناتے ہیں۔ پہلے وہ ڈراموں میں یہ چیز بار بار دیکھا کر عوام کا رد عمل چیک کرتے ہیں۔ پھر جب ایک چیز کو بار بار دیکھایا جاتا ہے تو عوام مانوس ہو جاتی ہے، پھر بعد میں اس کو معاشرے میں لایا جاتا ہے۔ اگر آپ لوگ اس بات کا ثبوت مانگو کے تو آپ لوگ دیکھو کہ پری زاد ڈرامے میں لڑکی کو لڑکا دیکھایا جاتا ہے، یعنی وہ لڑکی ہو کر لڑکے والے کام کرتی ہے "ببلی بدمعاش” نام رکھتی ہے وہ لڑکوں والے کھیل کھیلتی ہے، لڑکوں کے ساتھ لڑائی کرتی ہے، اس بات کا دوسرا ثبوت بخت دوار ڈرامہ ہے، جس میں ہیروئن کو ہی لڑکا دیکھایا جاتا ہے۔ اس کا ہیئر اسٹائل بھی لڑکوں والا ہوتا ہے۔ پھر بعد میں "ایل جی پی ٹی کیو” کو اس معاشرے میں لایا گیا۔ کتنے ہی لڑکی لڑکوں نے اپنی جنس تبدیل کی ہے۔ یہ کس وجہ سے ہوا کہ پہلے ہی عوام کو یہ چیز عام سی معمولی کرکے دیکھ دی تھی۔

اگر ہم چاہتے کہ ہماری نوجوان نسل اس سب سے محفوظ رہے وہ اسلام کی طرف لوٹ آئیں تو ہم کو ان ڈراموں کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ ان ڈراموں کے خلاف عوام میں آگاہی پھیلانی ہوگی۔ ان ڈراموں کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔آپ لوگ ایسے ڈراموں کا مکمل بائیکاٹ کریں اور ہمارا ساتھ دیں اس نیک کام میں، اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔ آپ لوگوں کے سامنے ایسے ڈراموں کے شاٹ کلپ بھی آئیں تو ان کو اگنور کریں۔ پلیز ایسے ڈراموں کو سرچ کرنے سے گریز کریں ان کے ویوز بڑھانے سے گریز کریں جتنا ایسے ڈراموں کو ریچ ملتی ہے اتنے ہی ہمارے معاشرے میں ایسے ڈرامے بنتے ہیں۔ اتنے ہی ایسے ڈرامے ہمارے معاشرے میں دیکھائے جائیں گے۔

Shares: