امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ جنگوں سے متعلق اپنے سابقہ مؤقف سے یوٹرن لیتے ہوئے اسرائیلی جارحیت پر خاموشی اختیار کی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے 2019 میں اپنے دور صدارت کے دوران کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں جنگوں میں ملوث ہونا امریکا کی تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا، ان جنگوں میں 80 کھرب ڈالر ضائع ہوئے، ہزاروں امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور مقامی آبادی کو بھی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

انہوں نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ امریکا نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے جھوٹے دعوؤں کی بنیاد پر جنگیں چھیڑیں۔ٹرمپ نے صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ کوئی نئی جنگ شروع نہیں کریں گے بلکہ دنیا میں جاری جنگوں کا خاتمہ کریں گے۔

تاہم حالیہ صورتحال کے برعکس، انہوں نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جاری بدترین حملوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر کسی قسم کا ردعمل نہیں دیا۔ چند روز قبل امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ایک بار پھر ویٹو کر دیا۔

ٹرمپ کی ایران پالیسی پر میکرون کا اظہار تشویش

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران سے متعلق حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے ٹرمپ کا مؤقف مسلسل تبدیل ہو رہا ہے۔انہوں نے انتباہ دیا کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کے لیے طاقت کا استعمال ایک بڑی اسٹریٹیجک غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔

میکرون کا کہنا تھا کہ صرف مذاکرات ہی خطے میں دیرپا امن اور استحکام کا راستہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ ایران کے ساتھ دوبارہ بات چیت کی راہ اپنائی جائے۔فرانسیسی صدر نے مزید کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ ایران پر دباؤ ڈالنے کی امریکی پالیسی نتائج دینے کے بجائے مزید خطرات پیدا کر سکتی ہے۔

ایرانی پاسداران انقلاب کی تل ابیب خالی کرنے کی وارننگ

اسرائیلی جارحیت اور ایرانی سرخ پرچم.تحریر:سیدہ سعدیہ عنبرؔ الجیلانی

امریکی محکمہ دفاع اور اوپن اے آئی کے درمیان فوجی مقاصد کے لیےمعاہدہ

Shares: