ایران کے بعد پاکستان؟ اسرائیل کی نظریاتی جنگ کا اگلا ہدف
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفٰی بڈانی
پاکستان کی سینیٹ میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی حالیہ تقریر نے ایک بار پھر پاکستان اور اسرائیل کے درمیان دشمنی کے تاریخی بیانیے کو زندہ کر دیا ہے۔ انہوں نے ایک سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کا حوالہ دیا، جس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے 2011 میں کہا تھا کہ "ایران کے بعد پاکستان ہماری نظر میں ہوگا۔” یہ بیان اس بیانیے کو تقویت دیتا ہے کہ پاکستان کی جوہری طاقت اسرائیل کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والا وہ اقتباس ہے جو اسرائیل کے بانی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے دیا تھا جو مبینہ طور پر 1967 میں The Jewish Chronicle (UK) میں شائع ہوا تھاکہ "عرب ہمارے دشمن نہیں ہیں کیونکہ ہم ان کو جانتے ہیں اور ان سے نمٹنے کی حکمت عملی ہمارے پاس ہے۔ ہمارا اصل دشمن پاکستان ہے کیونکہ پاکستان اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔” موجودہ ایران اسرائیل کشیدگی اور پاک بھارت تنازعات میں اسرائیلی کردار نے اس دشمنی کو نئے اور خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔

1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے اس کے عرب ممالک کے ساتھ تنازعات عالمی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کبھی سفارتی سطح پر استوار نہ ہوئے۔ پاکستان نے فلسطینی کاز کی غیر متزلزل حمایت کی اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے پلیٹ فارم سے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں جب اسرائیل نے مصر، شام اور اردن کے خلاف فتح حاصل کی تو پاکستان نے براہِ راست فوجی مداخلت سے گریز کیا لیکن سفارتی طور پر عرب ممالک کی بھرپور حمایت کی۔ صدر ایوب خان کی قیادت میں پاکستان نے OIC کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا جو عرب اسرائیل تنازعے کے تناظر میں اسلامی ممالک کے اتحاد کا ایک مضبوط پلیٹ فارم بنا۔

1973 کی عرب اسرائیل جنگ نے اس اتحاد کو مزید مستحکم کیا۔ OPEC کے رکن ممالک خاص طور پر سعودی عرب نے اسرائیل کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک کے خلاف تیل کی پابندی عائد کی جسے "تیل کا ہتھیار” کہا گیا۔ اس اقدام نے عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا اور پاکستان نے اس کی سیاسی حمایت کی، جو اس کے فلسطینی کاز اور اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کے نظریاتی موقف کا عکاس تھا۔ پاکستانی فضائیہ کے افسران نے اردن اور شام میں اسرائیلی طیاروں کے خلاف شجاعت سے لڑائی لڑی، جو پاکستان کی عرب کاز سے وابستگی کا ثبوت ہے۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جس نے اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور اقوامِ متحدہ سمیت ہر عالمی فورم پر فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی وکالت کی۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام جو 1974 میں بھارت کے جوہری دھماکے کے بعد تیزی سے ترقی کرتا چلا گیا، نہ صرف بھارت بلکہ اسرائیل کے لیے بھی تشویش کا باعث بنا۔ 1980 کی دہائی میں اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد اور بھارتی ایجنسی را (RAW) کے درمیان تعاون کی خبریں سامنے آئیں، جن کا مقصد مبینہ طور پر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ 1984 میں اسرائیلی فضائیہ کے سربراہ نے ایک انٹرویو میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو "خطرہ” قرار دیا اور 1998 میں جب پاکستان نے ایٹمی تجربات کیے تو یہ خدشات مزید گہرے ہو گئے۔ بھارتی صحافیوں اور مغربی مبصرین نے "Project Blue Star II” نامی ایک مبینہ منصوبے کی تفصیلات شائع کیں، جس کے تحت را اور موساد نے پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔پاکستان کی چوکس ہونے کے باعث یہ منصوبہ ناکام ہوا، لیکن اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسرائیل پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے کتناخوفزہ اور مخالف ہے.

حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران اسرائیل کھل کرپاکستان دشمنی میں سامنےآیا۔ مئی 2025 میں بھارت نے اسرائیلی ساختہ ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر حملے کیے، جن میں لاہور، کراچی اور بہاولپور جیسے کئی شہروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ پاکستانی فورسز نے ان حملوں کو ناکام بنایا لیکن اسرائیلی سفیر رووین آزار کی جانب سے بھارت کے "دفاعی حق” کی حمایت نے اس دشمنی کو مزید عیاں کر دیا۔ پاکستانی حکام کے مطابق بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں را اور موساد ملوث ہیں، جن میں کراچی میں چینی انجینئرز پر حملے اور گوادر میں سرمایہ کاری کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان بڑھتا ہوا فوجی تعاون اس بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔ بھارت 2004 سے اسرائیلی فالکن کنٹرول سسٹم سمیت جدید ہتھیار حاصل کر رہا ہے اور اسرائیلی ٹیکنالوجی اب بھارتی عسکری مشن کا اہم جزو بن چکی ہے۔

موجودہ ایران اسرائیل کشیدگی نے مشرق وسطیٰ کو ایک غیر مستحکم خطے میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور ایران پر حملوں کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔اور رواں ہفتے اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا.جنگ میں تبدیل ہوتا یہ منظر نامہ ،اس کے علاوہ پاکستان جو جغرافیائی طور پر ایران کے قریب ہے، اس سے براہِ راست متاثر ہو سکتا ہے۔ ایران کے بعد پاکستان کو اسرائیلی ایجنڈے کا ہدف بنانا، جیسا کہ اسحاق ڈار نے نیتن یاہو کی وائرل ویڈیو کے حوالے سے خبردار کیا، پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اس کی دفاعی حکمت عملی کا مرکزی ستون ہے اور اسے ہدف بنانے کی کوئی بھی کوشش خطے میں ایک بڑے تنازعے کو جنم دے سکتی ہے۔

پاکستان اور اسرائیل کے درمیان دشمنی کی جڑیں نظریاتی اختلافات، فلسطینی کاز کی حمایت اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے متعلق اسرائیلی خدشات میں پیوست ہیں۔ بن گوریان کا بیان تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور اس دشمنی کے بنیادی ڈھانچے کو سمجھنے کے لیے اہم ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں اسرائیلی ڈرونز اور فوجی تعاون واضح دکھائی دیا، نیز ایران اسرائیل تنازعے کی بڑھتی ہوئی شدت، پاکستان کے لیے نئے چیلنجز پیش کرتی ہے۔

پاکستان کو اس بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں نہ صرف اپنی جوہری صلاحیت کی حفاظت شامل ہے بلکہ سفارتی سطح پر OIC اور دیگر عالمی فورمز کے ذریعے اپنے موقف کو مضبوط کرنا بھی ضروری ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے مبینہ گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہوگا اور خطے میں اپنے اتحادیوں، خاص طور پر سعودی عرب اور چین کے ساتھ تعاون کو گہرا کرنا ہوگا۔

ایران کے بعد پاکستان اسرائیل کی نظریاتی جنگ کا اگلا ہدف ہو سکتا ہے، جیسا کہ نیتن یاہو کی وائرل ویڈیو اور اسحاق ڈار کے بیان سے عیاں ہے۔ یہ کوئی واہمہ نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو عشروں سے جاری جغرافیائی سیاسی چالوں اور بین الاقوامی سازشوں سے جڑی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے پاکستان کی جوہری طاقت کو مسلسل خطرہ سمجھا جاتا رہا ہے اور بھارت اس ایجنڈے کا علاقائی شراکت دار بنا ہوا ہے۔ آج جب مشرق وسطیٰ ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے تو پاکستان کو اپنی جوہری صلاحیت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو نئے عالمی تناظر میں ترتیب دینا ہوگا۔ یہ "ایشیا پیسیفک کولڈ وار” کا دور ہے، جہاں دشمن نہ صرف سرحدوں پر ہے بلکہ عالمی سازشوں کے جال میں بھی موجود ہے۔ پاکستان کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے نہ صرف اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا ہوگابلکہ عالمی برادری میں اپنی آواز کو زیادہ موثر انداز میں اٹھانا ہوگا تاکہ وہ اس نظریاتی جنگ میں اپنی بقا اور خودمختاری کو یقینی بنا سکے۔

Shares: