وزیر زراعت کے نام کھلا خط
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پنجاب اس کا دل کہلاتا ہے، جہاں کی زرخیز زمینیں صدیوں سے دنیا بھر میں اپنی پیداوار کے لیے مشہور ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پنجاب کے دل میں واقع 23 فور۔ایل اور 22 فور۔ایل حلقہ پی پی 190، تحصیل اوکاڑہ آج بدترین پانی کے بحران کا شکار ہیں۔

یہ علاقہ جو ماضی میں سرسبز کھیتوں، لہلہاتی فصلوں اور خوشحال کسانوں کی پہچان رکھتا تھا، آج پانی کی کمی اور حکومتی عدم دلچسپی کے باعث بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ زیر زمین پانی کھارا ہو چکا ہے، نہری پانی آخری ٹیلوں تک پہنچتے پہنچتے کمی کا شکار ہو جاتا ہے اور ہزاروں ایکڑ اراضی بنجر ہو کر رہ گئی ہے۔

23 فور۔ ایل اور 22 فور۔ایل کے علاقے میں زیر زمین پانی کا کھارا پن ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ٹیوب ویل کے ذریعے نکالا جانے والا پانی زمین کی زرخیزی کو تباہ کر رہا ہے۔ کھیتوں میں نمکیات کی تہیں جم گئی ہیں اور محتاط اندازے کے مطابق 20/30ہزار نمکیات کا تناسب پانی میں شامل ہے جبکہ زرعی ماہرین کے مطابق 1000 کے لگ بھگ نمکیات کا تناسب نہری پانی میں مکس کرلیں تو گزارا چل جاتا ہے۔ مگر نمکیات زیادہ ہونے کی وجہ جس سے زمین اپنی پیداواری صلاحیتیں کھو رہی ہے۔ پینے کے پانی میں بھی نمکیات کی زیادتی نے انسانی صحت پر خطرناک اثرات ڈالنا شروع کر دیے ہیں۔

یہ دونوں گاؤں نہر کے آخری ٹیلوں پر واقع ہیں جہاں پہلے ہی پانی کم مقدار میں پہنچتا ہے۔ مگر اب با اثر افراد اور محکمہ انہار کی ملی بھگت سے پانی کی چوری نے صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیا ہے۔ آخری ٹیلوں کے کسانوں کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترسنا پڑتا ہے۔ اور رات کو اکثر محکمانہ ملی بھگت سے پانی مزید کم ہو جاتا ہے۔ جبکہ یہاں پر ایک اندازے کے مطابق 25/30 منٹ فی ایکڑ پانی منظور شدہ ہے مگر 3 گھنٹوں میں بھی آخری کھیتوں کو سیراب کرنا مشکل ہے۔ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں پانی کی کمی کے باعث خشک ہو جاتی ہیں، کسانوں کی سال بھر کی محنت ضائع ہو جاتی ہے۔

جن کسانوں کے پاس آباؤ اجداد کی زمینیں ہیں، آج وہ بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ فصلیں نہ اگنے کی وجہ سے کسان قرضوں میں ڈوب چکے ہیں۔ پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے اور جو تھوڑی بہت فصل بچتی ہے اس کی قیمت مڈل مین حضرات اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں۔ یہ کسان جن کے خواب کبھی سرسبز کھیتوں کی صورت میں لہراتے تھے، آج غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

ان دونوں چکوک کے لوگ زراعت پیشہ چھوڑ کر بچوں کی روزی روٹی کمانے کے لیے شہروں میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ آج کئی خاندان اپنی زمینیں چھوڑ کر شہروں کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں۔ دیہات خالی ہوتے جا رہے ہیں اور شہروں پر آبادی کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ لوگ کب تک شہروں میں سہارا ڈھونڈتے رہیں گے؟ کب تک اپنی زمینوں سے ہجرت کرتے رہیں گے؟

پانی کے کھارے پن کی وجہ سے صرف فصلیں ہی تباہ نہیں ہو رہیں بلکہ انسانی صحت اور جانور بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بچوں میں جلدی امراض، معدہ اور جگر کی بیماریاں، اور ہڈیوں کی کمزوری عام ہو چکی ہے۔ مویشی بھی متاثر ہو رہے ہیں، جس سے دودھ اور گوشت کی پیداوار بھی گر رہی ہے۔

علاقے کے کاشتکاروں نے وزیر زراعت پنجاب سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سنجیدہ مسئلے پر توجہ دیں۔ کسان مطالبہ کر رہے ہیں کہ:

* سولر انرجی اسپیشل گرانٹ جاری کی جائے تاکہ سولر ٹیوب ویل کے ذریعے میٹھا پانی استعمال کیا جا سکے۔
* محکمہ انہار میں پانی چوروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جن کی کئی ایک ایف آئی آر درج شدہ ہیں مگر کاروائی نہیں ہوسکی۔
* زرعی اصلاحات کے تحت زیر زمین پانی کی مینجمنٹ کے منصوبے شروع کیے جائیں۔
* بنجر ہونے والی زمینوں کو دوبارہ قابل کاشت بنانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جائے۔

آج 23 فور ایل اور 22 فور۔ایل کے کسان حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ محض وعدے، اعلانات اور فوٹو سیشن سے کسانوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ حکومت اگر زراعت کو واقعی ترقی دینا چاہتی ہے تو اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔ کسان کی ہجرت کا مطلب دیہی معیشت کا زوال ہے اور اس کا اثر مجموعی قومی معیشت پر بھی پڑے گا۔

کب تک کسان اپنی زمینیں چھوڑتے رہیں گے؟
کب تک زرخیز زمینیں بنجر ہوتی رہیں گی؟
کیا حکومت صرف ترقیاتی دعوؤں میں مصروف رہے گی؟
کیا عوامی نمائندے اس گاؤں کے مسائل کی ذمہ داری قبول کریں گے؟

جی ہاں، اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور عوامی نمائندے کسان کی فریاد سنیں۔ اگر زراعت ختم ہوئی تو یہ ملک بھی شدید بحران کا شکار ہو جائے گا۔ پانی کی قلت کا یہ خطرناک الارم حکمرانوں کو جگانے کے لیے کافی ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔

Shares: