واشنگٹن: عالمی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر کیے گئے فضائی حملوں کے باوجود ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ امریکی حملوں نے ایران کے یورینیئم کی افزودگی کے عمل کو متاثر کیا ہے، مگر ایران کی ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر ناکارہ بنانا ابھی ممکن نہیں ہوا۔
اسکائی نیوز کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایڈیٹر ٹام کلارک کے مطابق، پینٹاگون نے بتایا ہے کہ ایران کی تین بڑی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لیے 125 جنگی طیارے، بحری جہاز اور آبدوزیں استعمال کی گئیں۔ تاریخ میں پہلی بار بی-2 بمبار طیاروں کو اتنی بڑی تعداد میں تعینات کیا گیا، جنہوں نے نطنز اور فردو کے ایٹمی پلانٹس پر 14 "GBU-57 بنکر بسٹر” بم گرائے۔پینٹاگون کے مطابق، فردو کمپلیکس جو کہ پہاڑ کے اندر 80 سے 90 میٹر کی گہرائی میں واقع ہے، اسرائیلی حملوں سے محفوظ تھا، مگر امریکی حملوں کے بعد سیٹلائٹ تصاویر میں پہاڑ میں تین مقامات پر بڑے شگاف دیکھے گئے ہیں۔ ایران نے اس حوالے سے کہا ہے کہ یہ صرف بالائی سطح پر نقصان ہے اور اندرونی تنصیبات محفوظ ہیں۔
امریکی حملوں کا بنیادی مقصد زیر زمین موجود ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنا تھا تاکہ ایران یورینیئم کو اس حد تک افزودہ نہ کر سکے جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صرف تنصیبات کو نقصان پہنچانے سے ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت ختم نہیں ہوگی، کیونکہ ایران کے پاس انتہائی معیاری یورینیئم افزودگی کے جدید نظام، بارودی مواد کے دیگر پیچیدہ نظام اور ٹیکنالوجی موجود ہے، جن کے خاتمے کے بغیر اس کا جوہری پروگرام برقرار رہے گا۔ماہرین نے مزید کہا کہ امریکی حملوں کے حقیقی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے وقت درکار ہے، کیونکہ یہ حملے ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہو سکتے ہیں۔