پابندی کے باوجود سرکاری افسران بلاخوف و خطر ٹک ٹاک سٹار بن کر ویڈیو بناؤ مہم چلا رہے ہیں۔جیسے ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے ویسے ہی سوشل میڈیا سیلف پروجیکشن کے شوق میں پاگل ہونے والے واحیات ٹائپ ٹک ٹاکر افسران کی اقلیت عزت و وقار کے ساتھ کام کرنے والی بیوروکریسی کی اکثریت کا ایمج بھی خراب کررہے ہیں۔ابھی بھی وقت ہے کہ ارباب حکومت سرکاری ملازمین کی سیلف پروجیکشن کی لعنت پر واضح پابندی کے احکامات جاری کرکے بیوروکریسی اور سرکاری ملازمت کی رہی سہی عزت بچا لیں۔ورنہ افسران اور گلی کے آوارہ لونڈے لپاڑے ایک جیسے نظر آنے لگیں گے۔
خواتین افسران میں ٹک ٹاکر بننے کا رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔سوشل میڈیا سیلف پروجیکشن کرنے والے افسران ذہنی بیمار ہیں۔سارے معاشرے کو ان کی جہالت اور پاگل پن نظر آرہا ہے لیکن سیلف پروجیکشن کیلئے ہلکان ہونے والے افسران اپنی ذہنی غلامی اور غلاظت سے باز نہیں آرہے ہیں۔سیلف پروجیکشن کرنے والوں کی ذہنی پسماندگی پر ترس آتا ہے افسر تو بن گئے ہیں لیکن اپنے اندر کی غربت اور احساس محرومی کو دور کرنے کیلئے عادت سے مجبور ہو کر شو آف کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔افسران کی حرکتیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ ان میں تھوڑی شرم یا افسری کا پاس باقی بچا ہے۔سیلف پروجیکشن کے غیر قانونی دھندے کو محکمے کی مثبت ایمج سازی کا نام دینا ”ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری“ جیسی انتہائی مضحکہ خیز اور سراسر بکواس سٹیٹمنٹ ہے۔محکمے کی نیک نامی عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنے سے ہوتی ہے اختیارات سے تجاوز اور ذاتی فائدے کیلئے کی جانی والی سیلف پروجیکشن سے نہیں۔تمہاری سیلف پروجیکشن محکمے کی عزت نہیں بدنامی اور شرمندگی کا باعث بن رہی ہے۔
سیلف پروجیکشن کیلئے ہلکان ہونے والو تمہاری ان بچگانہ اور تھڑی ہوئی حرکتوں نے سرکاری ملازمت کو گالی بنادیا ہے۔سرکاری ملازمت کے قوانین میں واضح لکھا ہے کہ آپ اپنی یونیفارم، عہدے، رینک، سرکاری گاڑی اور ڈیوٹی کو ذاتی فائدے کیلئے ہرگز استعمال نہیں کرسکتے۔شہری قتل ہو رہے ہیں، حوا کی بیٹیوں کی عزت لٹ رہی ہے، ڈکیٹیاں ہوتی ہیں اور دوسری طرف پولیس سوشل میڈیا پر کارگردگی دکھانے کیلئے جعلی اور پلانٹنڈ ویڈیو شوٹنگ میں مصروف ہوتے ہیں۔جب سے سرکاری افسران نے سوشل میڈیا سیلف پروجیکشن کا دھندہ شروع کیا ہے کارگردگی بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ٹک ٹاکر افسران ذاتی تشہیر کیلئے سرکاری وسائل اور طاقت کا بے جا استعمال کررہے ہیں،شہرت کے حصول کیلئے حواس باختہ ذہنی مریض ٹائپ افسران دفتر اور کھلی کچہریوں میں آنے والے معزز شہریوں کی ویڈیوز بنا کر انکی پرائیویسی خراب کررہے ہیں۔ ٹک ٹاکر افسران کی ان تھڑی ہوئی واحیات حرکتوں سے لوگوں کے دلوں سے افسران کا احترام ختم ہورہا ہے اور نفرت کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔
ایسے افسران کو نہ صرف فی الفور عہدوں سے ہٹایا جائے بلکہ سول سروس سے فارغ کرنا چاہئے کیوں کہ ان آفیسرز کا کام عوام کی خدمت کرنا اور ان کے مسائل کا حل ہے نہ کہ اپنی سیلف پروجیکشن کیلئے ان کی ویڈیوز بنا کر بےعزت کرنا۔ ہم آئے روز ڈرامہ دیکھتے ہیں کہ اسسٹنٹ کمشنر،ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو پھولوں کے ہار پہنا کر استقبال کیا گیا۔ یہ سارا کچھ ڈرامے بازی اور جعل سازی کے سوا کچھ نہیں، سوشل میڈیا سیلف پروجیکشن کیلئے کی جانی والی فنکاریاں اور جعل سازیاں ہیں۔ڈی پی او اپنے ایس ایچ او کو جبکہ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر تحصیلیدار اور پٹواری کو ایڈوانس ٹاسک دیتے ہیں کہ میرے آنے پر بہترین استقبال ہونا چاہئے اور پروفیشنل ویڈیو گرافرکو بلانا۔آپ غور کریے گا پھول پہنانے اور پتیاں پھینکنے والے سارے منشیات فروش،زمینوں پر قبضے کرنے والے اور دیگر ٹاؤٹ ہوتے ہیں ورنہ عام معزز شہری کو کیا مصیبت کہ ان جعل سازیوں کیلئے اپنا وقت برباد کرے۔او بے شرمو تمہیں ذرا سی بھی حیا اور شرم نہیں آتی کہ ایسی چول حرکتیں کرکے شرمندہ ہونے کی بجائے فخر محسوس کرتے ہو۔افسران کے استقبال کی نوسربازیاں بھی مکمل بند ہونی چاہئے۔
گذشتہ دنوں ایک ایڈیشنل آئی جی ملنے آئے اور سوشل میڈیا کے ذکر پر انہوں نے اس بات کا اقرارکیا کہ فنکاریاں اور سیلف پروجیکشن کرنے والے افسران نے ناصرف اپنے حلف سے روگردانی اور اختیارات سے تجاوز کیا بلکہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو بھی شرمسار کیا۔ان کا کہنا تھا سوشل میڈیا پر سرکاری ملازمین کی سیلف پروجیکشن میں سب سے زیادہ بدنامی اور عوامی نفرت پولیس ڈیپارٹمنٹ نے سمیٹی۔لیکن بہت سارے اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر سول افسران پولیس سے زیادہ بڑے اور گھٹیا ٹک ٹاک سٹار بن چکے ہیں۔انہوں نے اپنا موبائل میرے سامنے کرتے ہوئے کہا کہ یہ ویڈیو دیکھ کر بتائیں کہ یہ اسسٹنٹ کمشنر ٹھیک ہے،ویڈیو دیکھ کر میں نے ان سے کہا کہ سر یہ ہرگز اسسٹنٹ کمشنر نہیں ہوسکتا۔کسی نے فیک اکاؤنٹ بنایا ہو گا ورنہ اسسٹنٹ کمشنر اس قدر واحیاتیاں کیوں کرے گا؟ کوئی بھی آفیسر اس قدر جاہل اور بے شرم تو ہونہیں سکتا، بیوروکریسی کا معیار اتنا بھی نہیں گر سکتا کہ ایسے گندے انڈے بھی آفیسر بن جائیں۔لیکن مجھے غلط ثابت ہونا پڑا کیونکہ یہ اسسٹنٹ کمشنر کا ذاتی اکاؤنٹ تھا۔ابھی میری حیرانی ختم نہیں ہوئی تھی انہوں نے ایک خاتون کی ویڈیو دکھائی تو میں نے کہا کہ خواتین پر تنقید مناسب نہیں ویسے بھی کوئی مجبور عورت ہوگی جو سوشل میڈیا کے زریعے پیسے کمانا چاہتی ہے یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سٹیج ایکٹریس نہیں بلکہ یہ بھی سرکاری ملازم ہے۔
اگر سرکاری گاڑی اور پروٹوکول ساتھ نہ ہو تو سرکاری افسران سڑکوں اور چوراہوں پر جس طرح کی بیہودہ حرکتیں اور ایکٹنگ کی ویڈیو بنا رہے ہوتے ہیں انکو لونڈا لپاڑا سمجھ کر کسی سپاہی نے پکڑ کر تشریف لال کر دینی ہے بعد میں بتاتا پھرے گا کہ میں مراثی نہیں افسر ہوں۔بقول سنئیر افسران سیلف پروجیکشن والے ذہنی مریض ہیں۔ سیلف پروجیکشن کی لعنت میں ہلکان ہونے والے ذہنی مریضوں کو ٹھیک کرنے کا واحد علاج عہدوں سے ہٹاکر کسی ری ہیبلیٹیشن سینٹر میں داخل کروانا ہے۔
ملک سلمان
maliksalman2008@gmail.com