26 جون: منشیات کے خلاف عالمی دن
تحریر: ضیاء الحق سرحدی، پشاور
📧 ziaulhaqsarhadi@gmail.com
26 جون کا دن منشیات کے استعمال اور غیر قانونی کاروبار کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ منشیات کے استعمال کی تاریخ بھی انسانی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔ انسان اس کا استعمال شاید ازل سے ہی کرتا آ رہا ہے۔ دنیا کے تمام خطوں میں ایسی قدرتی اور خودرو جڑی بوٹیاں موجود ہیں جن کے استعمال سے نشہ ہوتا ہے۔

منشیات کا استعمال صدیوں سے جاری ہے۔ قدیم مذاہب اور تہذیبوں میں اس کی کوئی ممانعت نہیں تھی، البتہ اسلام نے ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دے کر مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن آج دنیا کے دیگر ممالک کی مانند اسلامی ممالک میں بھی اس کا استعمال عام ہے۔

افغانستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں دنیا کی سب سے زیادہ مقدار میں منشیات کی پیداوار ہوتی ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقے منشیات کی اسمگلنگ کے لیے مشہور ہیں۔ اس کا استعمال خیبر سے کراچی تک ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ نشے کے عادی افراد کے بوجھ نے پاکستان میں صحت عامہ کے نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ چھ لاکھ سے زائد پاکستانی نشہ کرنے والوں کو منشیات نہ ملے تو اس وجہ سے ان کی موت بھی ہوسکتی ہے۔ اے این ایف نے صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے کا عزم مصمم کر رکھا ہے، جس میں اب تک اینٹی نارکوٹکس فورس (ANF) نے حوصلہ افزا کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

اے این ایف نے ریکارڈ کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اس دوران لاکھوں کلو گرام منشیات پکڑی گئی ہیں، جو اے این ایف کی بہترین کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کا کریڈٹ اے این ایف کے میجر جنرل عبدالمعید اور کمانڈنٹ پشاور اے این ایف بریگیڈیئر مظہر حسین کو جاتا ہے۔

دیگر سرکاری ایجنسیوں کے علاوہ ایف بی آر کے محکمے اور ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ پشاور آپریزمنٹ اور کسٹم انفورسمنٹ کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ ان محکموں نے بھی منشیات پکڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، جس کا سہرا چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال، ممبر کسٹم آپریشن محمد جنید جلیل خان، چیف کلکٹر کسٹم آپریزمنٹ نارتھ پشاور خواجہ خرم نعیم، کلکٹر کسٹم آپریزمنٹ پشاور اظہر المہدی، چیف کلکٹر کسٹم انفورسمنٹ باسط عباس اور کلکٹر کسٹم انفورسمنٹ ضیاء اللہ شمس کو جاتا ہے۔

محکمہ کسٹمز پشاور نے بڑی تعداد میں منشیات، شراب، جعلی سگریٹ، زائدالمیعاد ادویات (جو کہ استعمال کے لیے نہایت ہی مضر صحت ہیں) پکڑی ہیں جن میں ہیروئن پاوڈر، چرس، افیون، میتھیمفیٹامین (آئس ڈرگ)، کوکین وغیرہ شامل ہیں، جن کی مالیت 30 ملین روپے بنتی ہے۔ کسٹم جنرل آرڈرز کے تحت ان تمام اشیاء کو ضائع کر دیا جاتا ہے۔

اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس کو آگاہی دینا ہوتا ہے کہ منشیات کا استعمال معاشرے کے لیے ناسور ہے۔ اینٹی نارکوٹکس فورس پاکستان میں یہ دن بھرپور طریقے سے مناتی ہے اور منشیات سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ اے این ایف اپنی ذمہ داریاں مکمل دلجوئی اور پختہ عزم کے ساتھ بخوبی سر انجام دے رہا ہے۔

اے این ایف منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر برسرپیکار ہے۔ عوامی شعور بیدار کرنے کی غرض سے سال 2024-2025 کے دوران اب تک صوبے بھر میں 100 سے زائد آگاہی سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا ہے، جبکہ تعلیمی اداروں میں بھی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

اس ضمن میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی (KMU) کی اینٹی ڈرگ اینڈ ٹوبیکو کمیٹی ہر سال یہ دن بڑے اہتمام سے مناتی ہے، جس کے روح رواں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق ہیں۔ راقم (ضیاء الحق سرحدی) بھی اس کمیٹی کے رکن ہیں۔

آگاہی سرگرمیوں میں سیمینار، واک، کھیلوں کی سرگرمیاں، میڈیا اشتہارات، اور عوامی حلقوں میں آگاہی مواد کی تقسیم شامل ہیں۔ عالمی دن کی مناسبت سے 26 جون 2025 کو پشاور میں خصوصی آگاہی واک کا انعقاد کیا گیا ہے، جس میں نوجوانوں اور سول سوسائٹی کی بڑی تعداد شرکت کرے گی۔

اینٹی نارکوٹکس فورس نے منشیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے کراچی، کوئٹہ، اور اسلام آباد میں تین مراکز قائم کیے ہیں، جہاں اب تک 15000 سے زائد افراد کا مفت علاج کیا جا چکا ہے۔

اس وقت 90 فیصد منشیات افغانستان میں پیدا ہو رہی ہے، جس میں سے 40 فیصد پاکستان اسمگل کی جاتی ہے اور پھر آگے مختلف ممالک کو منتقل ہوتی ہے۔ باقی 50 فیصد منشیات افغانستان سے وسطی ایشیائی ممالک کو ایران کے راستے سے سمگل کی جاتی ہے۔

چار دہائیوں پر محیط افغان بدامنی نے جہاں پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے، وہیں نوجوان نسل میں بگاڑ پیدا کیا۔ بدامنی اور دہشت گردی نے کاروبار زندگی کو متاثر کر کے نوجوانوں کو بے روزگار کیا، جنہیں بعد ازاں نشہ کی طرف راغب کیا گیا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 20 کروڑ سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال براعظم امریکا میں ہوتا ہے، جب کہ ہیروئن کے استعمال میں ایشیا سرفہرست ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ مانگ یورپ میں ہے، جہاں 75 فیصد لوگ ذہنی دباؤ اور دیگر مسائل کے حل کے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔

پاکستان میں تقریباً 2 ملین لوگ صرف ہیروئن کے عادی ہیں۔ افغانستان کے 34 میں سے 17 صوبوں میں 24,700 سے 59,300 ایکڑ رقبے پر بھنگ (Marijuana) کاشت کی جاتی ہے، جس سے سالانہ 1500 سے 3500 ٹن چرس حاصل ہوتی ہے، اور اس کی آمدنی 115 ملین ڈالر بنتی ہے، جو افیون کی آمدنی کا صرف 10 سے 15 فیصد ہے۔

پاکستان میں منشیات کے خاتمے کے لیے صرف سخت اقدامات ہی کافی نہیں، بلکہ اس کے اسباب کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے انسداد منشیات پالیسی کے تحت تمام نوجوانوں کو اس کے مضر اثرات سے آگاہ کیا جائے، اسکولوں، کالجوں میں سوشل ٹریننگ اور علاج کے پروگرامز متعارف کرائے جائیں، ڈرگ ٹریفکنگ کو مؤثر طریقے سے روکا جائے۔

نشے کے عادی افراد کو مجرم سمجھنے کے بجائے ان کی بحالی میں مدد دی جائے، جب کہ منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ تمام سیاسی جماعتوں، لیبر یونینز، میڈیا، مذہبی اداروں، اور این جی اوز کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔

وزارت نارکوٹکس کنٹرول، وزارت مذہبی امور کے ساتھ مل کر آگاہی پروگرام تشکیل دے، جب کہ وفاقی و صوبائی سطح پر مزید بحالی مراکز قائم کیے جائیں۔ جیلوں میں موجود قیدیوں میں 40 فیصد منشیات کے عادی ہوتے ہیں، ان کے علاج کا آغاز جیلوں سے ہونا چاہئے۔

خواتین کے لیے بھی بڑے شہروں میں بحالی کے علیحدہ مراکز قائم کیے جائیں تاکہ ہم منشیات سے پاک اور صحت مند قوم بن سکیں۔

Shares: