اسلام آباد: سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے نظرثانی کیس کی سماعت کے درمیان جسٹس جمال مندوخیل اور وکیل حامد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا جبکہ دورانِ سماعت جسٹس صلاح الدین پنہور نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا، جس کے باعث بینچ ٹوٹ گیا،مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ ہوگیا، سپریم کورٹ آئینی بینچ کچھ دیر میں مختصر فیصلہ سنائے گا۔
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت ہوئی کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم گیارہ رکنی آئینی بینچ کر رہا تھا،آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس عقیل عباسی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔
سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان اپنے دلائل پیش کر رہے تھے کہ اس دوران جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ میں اپنا مختصر فیصلہ پڑھنا چاہتا ہوں،جسٹس پنہور نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیس کی کئی سماعتوں کا حصہ رہے ہیں، تاہم گزشتہ سماعت پر وکیل حامد خان کی جانب سے دیے گئے ریمارکس پر دکھ پہنچا وکیل حامد خان سے 2010 میں مل کر کام بھی کر چکا ہوں، لیکن گزشتہ سماعت پر چھبیسویں آئینی ترمیم کےبعد آنیوالے ججز پر اعتراضات کیے گئے،ان اعتراضات میں شامل ججز میں میں بھی شامل ہوں۔
افواج پاکستان موجودہ دور کے جنگی تقاضوں کے مطابق ہمہ وقت تیار ہیں،فیلڈ مارشل
جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ وہ خود کو اس بینچ سے الگ کر رہے ہیں تاکہ عدالتی غیر جانبداری پر کوئی سوال نہ اٹھے،تاہم اس عدالتی کارروائی کے بعد بینچ 11 رکنی سے کم ہو کر 10 رکنی رہ گیا ہے،بینچ کے 10 رکنی ہونے کے بعد بھی وکیل حامد خان نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ 10 رکنی بینچ یہ کیس نہیں سن سکتا۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نےردعمل دیتے ہوئے کہا آپ یہ کس قانون کے تحت کہہ رہے ہیں؟ اس طرح نہیں چلے گا، آپ غیر ضروری باتیں نہ کریں۔انہوں نے مزید کہا آپ صرف رولز سے عدالت کو آگاہ کریں، جسٹس امین الدین خان نے وکیل کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا ہم آپ کا اعتراض مسترد کرتے ہیں۔
حج 2026 کیلئے عازمین کی لازمی رجسٹریشن کا باقاعدہ آغاز ہو گیا
حامد خان نے کہا کہ مثالیں موجود ہیں آپ یہ سماعت نہیں کر سکتے، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہاں لکھا ہے کہ ہم کیس کی سماعت نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ رولزمیں دکھائیں کیسے نہیں کرسکتے سماعت؟ اگر آپ نے دلائل دینا ہیں تو دیں ورنہ واپس کرسی پر بیٹھ جائیں، یہ سپریم کورٹ ہے، مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، آپ اچھے وکیل ہیں مگر جو آپ نےکیا ہے یہ اچھے وکیل کارویہ نہیں ہے۔
اس موقع پر حامد خان نے جسٹس مندوخیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ اتنی سختی کیسے کرسکتے ہیں؟ میں سپریم کورٹ کی عزت کرتا ہوں آپ میرے کنڈکٹ پر بات کیسے کرسکتے ہیں، آپ دوسروں کو بات نہیں کرنے دیتے، سن تو لیں ، عزت سے بات کریں۔
وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس کی مثال ہے، قاضی فائزعیسیٰ کیس میں طےہوا اصل کیس سےکم ججز نظرثانی کیس کی سماعت نہیں کرسکتے، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ قاضی فائز عیسی کا نام نہ لیں آپ سپریم کورٹ رول پڑھیں، حامد خان نے جواب دیا میں کیوں قاضی فائز عیسی کا نام نہ لوں؟ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہمیں سختی کرنا آتی ہے، آپ کو کہا ہے رول پڑھیں۔
قانون سے کھلواڑ کرتے بیوروکریسی کے سپر ہیروز.تحریر:ملک سلمان
حامد خان نے جسٹس جمال مندوخیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ غصے کی حالت میں ہیں یہ سماعت نہ کریں، اس پر جسٹس مندوخیل نے جواب دیا مائنڈ یور لینگویج، میں کس حالت میں ہوں مجھے معلوم ہے، میں اس ادارے کی خاطر اپنی والدہ کی فاتحہ چھوڑ کرآیا ہوں آپ مذاق پر تُلے ہیں۔
وکیل حامد خان نے دلائل دیے کہ 13 ججز کے فیصلے کے خلاف 10 جج بیٹھ کر سماعت نہیں کرسکتے، اس پر جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 13 میں سے الگ ہونے والے ججز کی رائے بھی شمار ہوگی۔
وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا ہم احترام کرتے ہیں مگر 26 ویں ترمیم ہم نے نہیں پارلیمنٹ نے کی، آپ نے 26 ویں ترمیم کے خلاف ووٹ نہیں دیا، آپ نے بائیکاٹ کیا، جب تک 26 ویں ترمیم آئین کا حصہ ہے ہم اس کے پابند ہیں یا تو آپ اس سسٹم کو تسلیم کر لیں یا پھر وکالت چھوڑ دیں۔
خامنہ ای کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، اسرائیلی وزیر دفاع
بعد ازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں حامد خان کا بینچ پر اعتراض مسترد کردیا۔