دریائے سوات کا وہ المناک سانحہ تو گزر گیا، مگر گھروں کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ وہ گھروالے جنہوں نے اپنی بیوی اور دو جواں سال بیٹیوں کی تدفین کی، اب 17 سالہ لاپتا بیٹے کے انتظار میں آنسو خشک کرتے نظر آ رہے ہیں۔ عبدالسلام، جو ایک غمزدہ والد ہیں، کا کہنا ہے کہ موت تو برحق ہے مگر اداروں کی نااہلی نے ان کا صبر آزما دیا ہے۔ بچے چیختے رہے، مگر مدد کے لیے کوئی نہ آیا۔

ڈسکہ کا نوجوان عبد اللہ، نویں جماعت کا طالب علم، ماڈلنگ کا شوقین اور خوش مزاج لڑکا تھا۔ اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔ اہل خانہ تین سال سے سیاحتی مقامات کی سیر کا پروگرام بنا رہے تھے تاکہ سب ایک ساتھ خوشیاں منائیں۔ مگر کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ عبد اللہ دریا کی تیز لہروں میں کہیں گم ہو جائے گا اور اس کے گھر والے بے بسی کے مارے ایک طویل انتظار میں مبتلا ہو جائیں گے۔

دریائے سوات کے اس افسوسناک حادثے میں مجموعی طور پر 17 افراد بہہ گئے تھے، جن میں سے چار کو بچا لیا گیا جبکہ 12 کی لاشیں برآمد ہو چکی ہیں۔ عبد اللہ کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ عبدالسلام نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اداروں کی لاپرواہی پر شدید تنقید کی اور کہا کہ “بچے جب مدد کے لیے چیختے رہے، کوئی نہیں آیا۔”عبد اللہ کے کزن اور دوست اسے واپس آنے کی امید رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عبد اللہ ضرور واپس آئے گا اور پھر سے سب کو ہنسائے گا، اپنے والد کا سہارا بنے گا۔ یہ امید کی کرن ہر دل میں زندہ ہے، جو گھروں کو امید کی روشنی فراہم کرتی ہے۔

عبدالسلام جو اس وقت بیرون ملک مقیم ہیں، جب وہ پاکستان آئے تو انہوں نے اہل خانہ کے لیے سیاحتی دورے کا پروگرام بنایا تھا۔ بدقسمتی سے ان کی طبیعت ناساز ہونے کے باعث وہ خود اس دورے میں شریک نہیں ہو سکے۔ اب وہ اپنی فیملی کے اس سانحے میں الجھے ہوئے ہیں، مگر کہتے ہیں کہ “موت تو برحق ہے، مگر اداروں کی نااہلی پر افسوس ہے۔”

Shares: