سوات میں 26 جون کو پیش آنے والے سیلابی طغیانی کے سانحے سے قبل حفاظتی پشتوں کی مضبوطی کی وجہ سے دریائے سوات کا رخ موڑ دیا گیا تھا، جس کا انکشاف کمشنر مالاکنڈ کی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرہ سیاح 9 بج کر 31 منٹ پر دریا میں داخل ہوئے اور محض 14 منٹ بعد 9 بج کر 45 منٹ پر پانی کی سطح میں نمایاں اضافہ ہوگیا۔رپورٹ کے مطابق ریسکیو اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچنے میں 20 منٹ کا وقت لگا اور وہ 10 بج کر 5 منٹ پر موقع پر موجود تھے، تاہم اس دیر سے پہنچنے کے باعث متعدد افراد سیلابی پانی میں بہہ گئے۔

دوسری جانب، دریائے سوات میں ڈوب کر لاپتا ہونے والے لڑکے کی تلاش کے لیے ریسکیو اینڈ سرچ آپریشن ساتویں روز بھی جاری ہے۔ حکام کے مطابق اب تک 12 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ ایک شخص کی تلاش بدستور جاری ہے۔صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے انکوائری کمیٹی کو بتایا کہ 23 جون کو ضلعی انتظامیہ کو بارشوں سے متعلق الرٹ جاری کیا گیا تھا، جس میں پشاور، سوات سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں 25 جون سے تیز بارشوں کی پیشگوئی شامل تھی۔ڈی جی پی ڈی ایم اے نے واضح کیا کہ سوات، دیر، کوہستان اور شانگلہ کے مقامی ندی نالوں میں فلیش فلڈ کا خاص طور پر انتباہ دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، ضلعی انتظامیہ کو چھوٹی اور بڑی مشینری کی فوری دستیابی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی تھی تاکہ ہنگامی صورتحال میں فوری ردعمل دیا جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کی تمام ضلعی انتظامیہ کو 46 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے گئے تھے اور امدادی سامان بھی ان کی ڈیمانڈ پر فراہم کیا جا چکا تھا۔ پی ڈی ایم اے نے اپنی ذمہ داریاں وقت پر مکمل کیں اور تمام تر اقدامات بروقت کیے گئے۔

26 جون کو دریائے سوات میں سیلابی ریلے کی وجہ سے شدید طغیانی آئی، جس کے نتیجے میں 17 افراد پانی میں بہہ گئے۔ ان میں سے 4 افراد کو بروقت بچالیا گیا، جبکہ 12 کی لاشیں برآمد ہو چکی ہیں۔ ایک شخص کی تلاش بدستور جاری ہے۔

Shares: