کیا کوئی سن رہا ہے؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان اس وقت ایک ایسے موڑ پر کھڑا ے جہاں ہر عام شہری نہ صرف زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہا ہے بلکہ خود سے یہ سوال بھی پوچھ رہا ہے کہ "کیا میری آواز کسی تک پہنچ رہی ہے؟” مہنگائی کی چکی میں پسنے والا مزدور، روزگار کی تلاش میں سرگرداں نوجوان، بچوں کی فیس اور دوا کے بیچ جھولتا باپ اور بے یقینی میں ڈوبا ہر دل آج سراپا سوال ہے۔ سوشل میڈیا پر صدائیں بلند ہو رہی ہیں، لیکن اقتدار کے ایوانوں میں یہ صدائیں یا تو دبی جا رہی ہیں یا نظرانداز کی جا رہی ہیں۔
یہ صرف ایک فرد کی نہیں، پوری قوم کی کیفیت ہے ایک ایسا اجتماعی اضطراب جو ہر گلی کے خاموش کونوں میں، ہر ماں کی دعاؤں میں اور ہر نوجوان کی آنکھوں کے بجھتے خوابوں میں چھپا ہوا ہے۔

ہر صبح جب ایک عام پاکستانی اپنا بٹوہ کھولتا ہے تو مہنگائی کا ایک نیا جھٹکا اسے سکتے میں ڈال دیتا ہے۔ آٹا، چینی، دودھ، سبزی، بجلی کے ناجائز بل اور ایندھن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 44 فیصد پاکستانی روزانہ 1100 روپے سے کم کماتے ہیں۔ جب ایک کلو آٹاخریدنے کیلئےپیسے نہ ہوں تو ایک غریب آدمی اپنے بچوں کے لیے روٹی کیسے لے کر آئے؟ سوشل میڈیا پر عوام پوچھ رہے ہیں کہ جب تنخواہ وہی پرانی ہے تو یہ نئے ٹیکس اور بڑھتی قیمتیں کیسے برداشت کریں؟ بینک ٹرانزیکشنز پر نئے ٹیکس کو "معاشی قتل عام” قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک صارف نے لکھاکہ "ہماری کمائی پہلے ہی ٹیکسوں کی نذر ہو رہی ہے، اب بینک سے پیسے نکلوانے پر بھی ٹیکس؟ یہ کون سی انصاف کی حکومت ہے؟” عوام کا مطالبہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقے سے ٹیکس وصول کیا جائے، دکانداروں اور بڑے کاروباریوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور عام آدمی پر بوجھ کم کیا جائے۔

اس معاشی بحران کے ساتھ بے روزگاری نے بھی پاکستانی نوجوانوں کے خوابوں کو چکناچور کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں نوجوان اپنی کہانیاں سنا رہے ہیں کہ پڑھائی مکمل کی، ڈگری لی، لیکن نوکری کہیں نہیں۔ سرکاری ملازمتوں پر پابندی، سرکاری اداروں کی نجکاری اور معاشی بدحالی نے روزگار کے مواقع ختم کر دیے ہیں۔ ایک صارف نے لکھاکہ "ہمارے والدین نے ہمیں پڑھایا کہ ڈگری ہماری زندگی بدل دے گی، لیکن اب ہم ڈگری لے کر در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔” نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں، لیکن جب وہ مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب رہے ہیں تو ملک کا مستقبل کون سنوارے گا؟ عوام کا مطالبہ ہے کہ روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، نجکاری کے بجائے سرکاری اداروں کو مضبوط کیا جائے اور ہنر سکھانے کے مؤثرپروگرام شروع کیے جائیں۔

سیاسی افراتفری نے پاکستانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے۔ 2024 کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات اور سیاسی جماعتوں کے درمیان عدم اتفاق نے عوام کے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوام پوچھ رہے ہیں کہ جب لیڈر ہی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں تو ہمارے مسائل کون حل کرے گا؟ ایک صارف نے ایکس (ٹویٹر)پرلکھاکہ "ہر سیاسی جماعت دعوے کرتی ہے کہ وہ عوام کی آواز ہے، لیکن اقتدار ملنے پر سب اپنے مفادات کے پیچھے بھاگتے ہیں۔” سیاسی عدم استحکام نے معاشی اور سماجی اصلاحات کو روک دیا ہے اور عوام کا مطالبہ ہے کہ سیاسی استحکام لایا جائے، اداروں کے درمیان تناؤ ختم کیا جائے اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام کی آواز کو سنا جائے۔

پانی کی کمی ایک خاموش قاتل بن کر پاکستان کے وجود کو چیلنج کر رہی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ 2035 تک پاکستان شدید پانی کے بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ دیہی علاقوں میں کسان پانی کے بغیر فصلیں اگاتے ہیں جبکہ شہری علاقوں میں صاف پانی کی عدم دستیابی بیماریوں کو جنم دے رہی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ "ہماری فصلیں سوکھ رہی ہیں، لیکن واٹر مینجمنٹ کے نام پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔” عوام کا مطالبہ ہے کہ واٹر مینجمنٹ کے موثر نظام بنائے جائیں، سندھ طاس معاہدے سے متعلق مسائل حل کیے جائیں اور پانی کی تقسیم صوبوں کے درمیان منصفانہ ہو۔

دہشت گردی اور سیکیورٹی مسائل نے پاکستانی عوام کو خوف کے سائے میں جینے پر مجبور کر دیا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات، سرحد پار سے سمگلنگ اور عدالتی نظام کی ناکامی نے عوام کے تحفظ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ "ہم اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں، لیکن دل میں خوف رہتا ہے کہ وہ واپس آئیں گے بھی یا نہیں۔” عوام کا مطالبہ ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو مضبوط کیا جائے، عدالتی نظام کو شفاف بنایا جائے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔

قدرتی آفات نے بھی پاکستانی عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ 2022 کے سیلاب نے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تباہی مچائی، جس سے فصلوں، مویشیوں اور انفراسٹرکچر کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ عوام یہ پوچھ رہے ہیں کہ جب ہر سال سیلاب آتے ہیں تو ہمارے ڈیم اور واٹر مینجمنٹ سسٹم کہاں ہیں؟ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ نظر نہیں آتا۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیےمؤثر پالیسیاں بنائی جائیں، ڈیموں کی تعمیر کو ترجیح دی جائے اور متاثرین کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

پاکستان کے عوام مشکلات میں گھرے ہیں، وہ معاشی انصاف، روزگار، سیاسی استحکام، پانی، سیکیورٹی اور قدرتی آفات سے تحفظ مانگ رہے ہیں۔ یہ سوالات صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہیں۔ کیا ہمارے لیڈر اس آواز کو سننے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم ایک ایسا پاکستان بنا سکتے ہیں جہاں عام آدمی سکون سے سانس لے سکے؟ وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر ان مسائل کا حل تلاش کریں۔ اگر ہم آج خاموش رہے تو کل ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک ہوگا۔ آئیے، اس چیخ کو ایک تحریک میں بدلیں اور ایک بہتر پاکستان کی بنیاد رکھیں۔

پاکستان کے ہر گوشے سے اُٹھنے والی یہ صدائیں محض سوشل میڈیا کی پوسٹس نہیں بلکہ یہ مسائل کے زخموں سے چور قوم کی پکار ہیں۔ یہ آوازیں نہ سیاسی نعروں کا حصہ ہیں، نہ ہی کسی ایجنڈے کی گونج بلکہ یہ ان ماں باپ کی آہیں ہیں جن کے بچے بے روزگار ہیں، وہ کسان کی فریاد ہے جو پانی کو ترس رہا ہے، وہ طالبعلم کی مایوسی ہے جو ڈگری لے کر در در کی ٹھوکریں کھا رہاہے اور اس مزدور کی چیخ ہے جو بجلی کے بل کے نیچے دب چکا ہے۔ کیا ایوانوں کی بلند دیواروں سے باہر یہ آواز پہنچ رہی ہے؟ کیا وزیروں، مشیروں اور اشرافیہ کے قہقہوں کے بیچ میں ان آہوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ایک دن ایسا آئے گا جب صرف عوام نہیں بلکہ خود اقتدار کے ایوان بھی ان خاموش چیخوں کی لپیٹ میں آئیں گے۔ وقت گزرنے سے صرف تاریخ بنتی ہے، قومیں نہیں۔ قومیں اس وقت بنتی ہیں جب ان کے رہنما عوام کی تکلیف کو اپنا درد سمجھیں، ان کی چیخ کو اپنا فرض اور ان کی امید کو اپنی ذمہ داری۔

اب وقت آ چکا ہے کہ "کیا کوئی سن رہا ہے؟” کو ایک فریاد سے نکال کر، ایک نعرہ، ایک تحریک، ایک انقلاب میں بدلا جائے۔ ہر پاکستانی کو چاہیے کہ وہ اس آواز کا حصہ بنے کیونکہ اگر ہم خاموش رہے تو صرف ہمارا حال نہیں، ہمارا مستقبل بھی سوالیہ نشان بن جائے گا۔ آئیے! سوال کرنے سے نہ ڈریں۔ آئیے! اپنی آواز کو ایک سمت دیں۔ آئیے! اپنے پاکستان کو بچا لیں… اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ "کیا کوئی سن رہا ہے؟” … ہاں، اب سننا پڑے گا!

Shares: