کیا ہم سب زندہ ہیں ۔۔ یا صرف سانس لے رہے ہیں ۔۔
"مثال ہے پنجابی کی: اولاد کلاد ہو جاندی اے، ما پے کماپے نئیں ہوندے” یعنی "اولاد بے وفا ہو سکتی ہے، لیکن ماں باپ کبھی ماں باپ ہونا نہیں چھوڑتے” —
یہ والدین کی محبت کے لیے ایک محاورہ ہے،
وہ محبت جو بے غرض، بے لوث اور غیر مشروط سمجھی جاتی ہے۔
لیکن پھر ایک لاش ملتی ہے…
تین ہفتے پرانی لاش ۔۔
جو اس محاورے کو جھوٹا کردیا ہے ۔
یہ لاش صرف حمیرا کی نہیں ہے… یہ انسانیت کی گلی سڑی لاش ہے۔
یہ واقعہ محض موت نہیں، ایک ایسا طمانچہ ہے جو سماج کے چہرے پر پوری قوت سے پڑتا ہے۔
اداکارہ، ماڈل، اور سوشل ورکر حمیرا اصغر — جو لاکھوں فالوورز رکھتی تھیں،
۔۔۔
ماڈل تھی اداکارہ تھی ۔
۔، جو تنہائی میں اس طرح مریں کہ ان کے ماں باپ نے بھی لاش لینے سے انکار کر دیا۔
پولیس نے فون کیا۔ بھائی نے کہا والد سے بات کریں۔ والد نے غصے سے کہا: ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
جو کرنا ہے کریں۔ ہم لاش نہیں لیں گے۔ فون بند ہو گیا۔
یہ صرف ایک بیٹی کی لاش نہیں تھی،
یہ اس رشتے کے تقدس کا جنازہ تھا جسے ہم مقدس مانتے ہیں۔
کیا رشتے اب بدنامی کے خوف، خودغرضی، یا مفاد پرستی کے ترازوں میں تولے جاتے ہیں؟
وہ لڑکی جس کے ہزاروں چاہنے والے تھے، وہ سوشل میڈیا پر موجود تھی، اس کی مسکراہٹوں میں زندگیاں جھلکتی تھیں — آخر تنہائی میں کیوں مری؟ کیوں کوئی اس کی غیر موجودگی محسوس نہ کر سکا؟
ایسی موت تنہائی کی نہیں، ہمارے ضمیر کی موت ہے۔
یاد کریں سیمیں درانی — ایک بھولی ہوئی کہانی۔۔۔
وہ حسین تھی…بہت حسین۔ روشن آنکھیں، زندہ دل، ہنسنے ہنسانے والی، سوال اٹھانے والی۔
بہادر اور زندہ دل تھی ۔۔
فیس بک کے کئی لوگ اسکے اچھے دوستوں میں شمار ہوتے۔۔
لیکن دنیا اسے سمجھ نہ سکی۔ کچھ نے اس کی ہنسی کو آزادی کہا، ،،
کچھ نے اس کی تحریروں کو بے باکی کہا،۔۔
مگر وہ جن کی اسے سب سے زیادہ ضرورت تھی، وہ خاموشی سے کنارہ کش ہو گئے۔۔۔
ایسی عورت اگر خود کو فنا کر لے، تو یہ واقعہ نہیں، واردات ہے۔۔۔
اس کی پنکھے سے لٹکی پانچ دن پرانی لاش کو خودکشی کہنا کافی نہیں۔
اگر یہ خودکشی ہے تو سمجھنا چاہیے کہ انسانیت بھی اسکے ساتھ خودکشی کرچکی ۔۔
۔ کہاں تھے اس کے وہ اپنے، جو اس کی غیر موجودگی سے بھی لاتعلق رہے؟
وہ دل کی مریضہ تھی، لیکن رشتے — جنہیں خون کہا جاتا ہے — اس کے دل تک نہ پہنچ سکے۔۔۔۔
سیمیں کی موت صرف اس کی اپنی نہیں، یہ ہمارے معاشرے کی بے حسی کی فردِ جرم ہے۔
عائشہ خان —سینئر ادکارہ ۔۔
ستر سالہ بزرگ خاتون ۔
وہ چہرہ جو برسوں اسکرین پر جگمگاتا رہا —
دلوں کو چھوتا، کہانیوں کو جان بخشتا۔
عائشہ خان… صرف ایک اچھی اداکارہ نہیں ، بلکہ با اخلاق، مہذب اور شائستہ لب و لہجے والی شخصیت تھیں۔
ان کے پڑھے لکھے، سیٹ ہنستے بنستے بچے اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ ایک ذمہ دار ماں بھی تھیں۔ ۔۔
لیکن جب اولاد اپنی زندگی میں مصروف ہوئی تو ماں کو ہی بھول گئی۔
وہ کرداروں میں جیتی رہیں، مگر شاید اپنی ذات میں مرتیں رہیں۔
جب دم توڑ گئیں تو کئی دن کسی کو خبر نہ ہوئی۔۔۔۔۔
اور جب خبر آئی، تو تنہائی کی بو ساتھ لائی —
جو برسوں سے ان کے ارد گرد تھی۔
عائشہ خان کی موت صرف ایک سینئر اداکارہ کی موت نہیں تھی — یہ فنکاروں کے لیے سماج کی بے رخی پر دنیا کی سٹیج پر انکا آخری سین تھا۔
اور اب پھر ایک 21 دن پرانی لاش ملی ہے ۔۔۔
اب سب کہانیوں ، انکی زندگیوں اور انکی لاشوں میں ایک بات مشترک ہے ۔۔اپنوں کی بے رخی اور تنہائی کی بو ۔۔۔
تین لاشیں، تین کہانیاں ہیں اور سماج سے ایک لاوارث سوال ہے ۔۔
کیا ہم سب زندہ ہیں؟

Shares: