جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہمارا صوبہ کسی سیاسی کشمکش کا متحمل نہیں ہوسکتا، صوبے سے متعلق پارٹی مشاورت سے فیصلہ کرے گی، میری تجویز ہوگی صوبے میں تبدیلی آئے۔
پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ تبدیلی آئے تو پی ٹی آئی کے اندر سے ہی آئے، سینیٹ سے متعلق کیا ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے ابھی تبصرہ نہیں کر سکتا،فاٹا انضمام غلط فیصلہ تھا جسے سب پارٹیوں کو تسلیم کرنا چاہیے، کل قبائل کا گرینڈ جرگہ دوبارہ بیٹھے گا، ان سے مشاورت کریں گے، ہم نے پہلے بھی فاٹا کے عمائدین کے مشورے سے فیصلے کرنا چاہے، انضمام مقصد نہیں تھا، بات قبائل کے سیاسی مستقبل کی تھی، انضمام کی تجویز آئی تھی ہم نے کہا نہیں، قبائل کو اختیار دو، فاٹا سے متعلق قبائلی مشران کی مشاورت ناگزیر ہےکمیٹی نے جے یو آئی ف سے نام مانگا ہے اور ہمیں فریق تسلیم کیا ہے، فاٹا کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں کتنے پشتون ہیں اور کتنے صوبے سے ممبر ہیں؟ ہمارے صوبہ کا پیسا صرف اس لیے ہے کہ مراعات لی جائیں، 8 سال ہوگئے ہیں فاٹا میں ایک پٹواری نہیں جا سکتا ہے،2006 اور 2007 میں خیبرپختونخوا میں امن و امان تھا اور اس وقت صوبے میں ہماری حکومت تھی
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کے پی اور بلوچستان میں جس بچے پر ظلم ہوتا ہے، میں ان کو اپنا بچہ سمجھتا ہوں، جمعیت علما اسلام سے بڑھ کر کس نے ملین مارچ کیے؟ عوام کا مورال بلند کرنے کے لیے پشاور میں ملین مارچ کیا، سیاستدان جیل جاتا ہے، لیکن تحریک صرف رہائی کے لیے نہیں ہوتی، تحریکیں عظیم مقاصد کے لیے ہوتی ہیں،کوئی سیاستدان جیل میں نہیں ہونا چاہیے ،پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان دشمنی تو نہیں ہے،اسمبلیاں بکی ہوئی ہیں،بکاؤ حکومت کا حصہ نہیں بن سکتا،اگر وفاقی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہوتا تو حکومت کا حصہ ہوتا،کسی کےسامنے جھک کر اقتدار نہیں مانگو ں گا،