ڈاکٹر جمیل جالبی، علم و ادب کے آفتاب کا سحرانگیز جائزہ
تحریر: ظفر اقبال ظفر
علم و ادب کی روشنی بکھیرنے والی عظیم شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو زبان و ادب کو جن جہتوں سے جِلا بخشی، وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان کی علمی و ادبی خدمات نے اردو زبان کی بنیادوں کو مضبوط کیا اور معاشرتی شعور کو جلا بخشی۔ ان کی تصانیف، تحقیقی کام، لغت نویسی، تنقید، ترجمہ، تدریسی اور اداری خدمات نے ان کی شخصیت کو ہمہ جہت بنا دیا۔

لغت نویسی: زبان کی بنیادوں کا تعین
ڈاکٹر جمیل جالبی لغت نویسی میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کی معرکہ آرا تصنیف "قومی انگریزی اردو لغت” دو جلدوں پر مشتمل ایک ایسا علمی سرمایہ ہے جو اردو زبان کی سائنسی، ادبی، معاشی، قانونی، طبّی، تجارتی اور سماجی اصطلاحات کو مربوط انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس لغت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علاقائی، مقامی اور عوامی سطح کے الفاظ کو بھی شامل کیا گیا تاکہ زبان کی اصلیت قائم رہے۔ دیگر لغوی کاموں میں "قدیم اردو کی لغت” اور "فرہنگِ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ” شامل ہیں۔

تحقیق و تاریخ ادب اردو
ڈاکٹر جالبی کی سب سے نمایاں اور یادگار تصنیف "تاریخ ادب اردو” ہے، جو چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ایک فکری، تحقیقی اور ثقافتی دستاویز ہے۔ اس میں اردو ادب کے ارتقاء کو صرف زمانی ترتیب میں نہیں بلکہ تہذیبی، سیاسی اور معاشرتی عوامل کی روشنی میں بھی پیش کیا گیا ہے۔

ان کی تحقیقی خدمات میں "مثنوی قدم راؤ پدم راؤ”, "دیوان حسن شوقی” اور "دیوان نصرتی” کی بازیافت شامل ہے، جن کے ذریعے انہوں نے اردو ادب کی گمشدہ کڑیوں کو بازیاب کیا۔ ان کی دیگر اہم کتب میں "اردو زبان کی تاریخ” اور "اردو نثر کا ارتقاء” شامل ہیں۔

تنقید: فکری تجزیے کی بنیاد
ڈاکٹر جالبی کا شمار جدید تنقیدی نظریات کے ماہرین میں ہوتا ہے۔ ان کی اہم تنقیدی کتب میں "تنقید اور تجربہ”, "نئی تنقید”, "عصری ادب”, "ادب، کلچر اور مسائل”, "میر تقی میر: ایک مطالعہ”, "قومی زبان: یکجہتی، نفاذ اور مسائل” شامل ہیں۔

وہ ادب کو محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ سماجی تنقید، فکری تجزیے اور معاشرتی اصلاح کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کی تصنیف "ارسطو سے ایلیٹ تک” مغربی تنقید کی تفہیم میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

ترجمہ نگاری: علم و ادب کی عالمی رسائی
ڈاکٹر جالبی نے ترجمہ نگاری میں بھی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ان کے اہم تراجم میں جارج آرویل کا ناول "جانورستان”, "ٹی ایس ایلیٹ کے مضامین”, "برصغیر میں اسلامی کلچر” اور "برصغیر میں اسلامی جدیدیت” شامل ہیں۔

ان کے تراجم صرف زبان کی تبدیلی نہیں بلکہ تخلیقی حسن کے آئینہ دار ہیں، جن میں اصل متن کی روح اور مفہوم کو محفوظ رکھا گیا۔

کلچر، تہذیب اور بچوں کا ادب
کلچر اور تہذیب کے میدان میں ان کی کتاب "پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل” ایک اہم تصنیف ہے، جس میں انہوں نے زبان، رسم و رواج، قومی وحدت اور تہذیبی شناخت پر سیر حاصل بحث کی۔

بچوں کے لیے ادب بھی ان کے قلم کی توجہ کا مرکز رہا۔ ان کی بچوں کے لیے لکھی گئی کتابیں "حیرت انگیز کہانیاں” اور "کھوجی” مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔

ادارتی، تدریسی و ادارتی خدمات
ڈاکٹر جالبی نے "پیامِ مشرق”, "ساقی” اور "نیا دور” جیسے معروف ادبی جرائد کی ادارت کی۔ وہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین اور اردو لغت بورڈ کے سربراہ بھی رہے۔

ان کی خطوط نگاری کا بھی ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے، جس میں تقریباً دو ہزار خطوط شامل ہیں۔ ان کا مجموعہ "مکاتیب مشاہیر بنام ڈاکٹر جمیل جالبی” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔

جمیل جالبی: ایک زندہ علمی روح
معزز قارئین! بطور ادب کے طالب علم، جمیل جالبی کے مطالعے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں ان کی علمی روح سے ملاقات کر رہا ہوں۔ انہوں نے معاشرے کے ذہنوں سے جہالت کے اندھیرے مٹانے کے لیے جو چراغ جلائے، ان کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑ سکتی۔

علم و ادب کی مٹھاس جس معاشرے کی زبان پر آ جائے، وہاں نفرتیں دم توڑ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر جالبی نے ادب کو ایک ایسا مرہم بنا دیا جو ہر زخم کو بھرنے کی شفا رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان کی روح کو بلند درجات عطا فرمائے اور ان کی کتابوں کی روشنی سے معاشرے کے اندھیرے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔ آمین ثم آمین۔

Shares: