قسطوں میں مرتی عوام
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان کی گلیوں، محلّوں، دیہی چوپالوں اور شہری بازاروں میں جو خاموشی پھیلی ہے، وہ سکون کی علامت نہیں، بلکہ طوفان سے پہلے کی گھمبیر خاموشی ہے۔ یہ ایک ایسا ماحول ہے جہاں ہر فرد معاشی بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے، اور سوال یہ نہیں کہ غصہ کب اُبلے گا، بلکہ یہ ہے کہ اس غصے کا رُخ کس طرف ہو گا۔ برسوں سے جاری مہنگائی، بے روزگاری، اور ریاستی پالیسیوں کی ناکامی نے ایک عام پاکستانی کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب "جینا” بھی ایک جرم بن چکا ہے۔
وفاقی بجٹ 2025-26 عوام کے زخموں پر نمک بن کر گرا۔ ایف بی آر کو گرفتاری کے اختیارات دینا، نقد ادائیگی کی حد متعین کرنا اور ڈیجیٹل انوائسنگ کو لازمی قرار دینا ایسے فیصلے ہیں جنہوں نے تاجر برادری کو خوف، غصے اور احتجاج کی جانب دھکیل دیا ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر نے خبردار کیا کہ یہ پالیسیاں کاروبار کو تباہ اور ملکی معیشت کو مفلوج کر دیں گی۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ برس 21 ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان کو خیر باد کہہ چکی ہیں،کیا یہ کسی معاشی زوال کی ابتدانہیں ہے؟
بجلی کے بل اس قوم کے لیے اب صرف ایک بل نہیں بلکہ ہر ماہ آنے والی معاشی سزائے موت بن چکے ہیں۔ ناقص ٹرانسمیشن نظام کے باعث صارفین پر 69.09 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت نے ایک طرف یونٹ ریٹس میں معمولی کمی کا اعلان کیا مگر دوسری طرف فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، سرچارجز اور ٹیکسز کی بھرمار نے تنخواہ دار اور دیہاڑی دار مزدورطبقے کی کمر توڑ دی۔ کراچی کے رہائشی محمد معین کی بات دل چیر دیتی ہے وہ کہتا ہے کہ "روز روز ٹکڑوں میں مرنے کے بجائے حکومت ایک ہی بار بم گرا دے”یہ ایک فرد کی آواز نہیں بلکہ ایک قوم کا نوحہ ہے۔
ٹیکسوں کا بوجھ بھی اب ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے۔ چھوٹی گاڑیوں پر جی ایس ٹی میں اضافہ، کاربن ٹیکس، اشیائے خورونوش اور تعلیم پر بالواسطہ ٹیکسز نے عام شہری کی زندگی مزید مہنگی اور ناقابلِ حصول بنا دی ہے۔ اب تنخواہ صرف بلز اور گزارے کے لیے بھی کافی نہیں۔ بنارس ٹاؤن کراچی کا رہائشی عبدالرحمان کہتا ہے کہ "دو وقت کی روٹی، بجلی کا بل اور بچوں کی تعلیم اکٹھے نہیں چل سکتے۔” وہ شخص کس امید پر جئے گا جس کے ہاتھ میں پیسہ نہیں، پیچھے ریاست نہیں اور آگے راستہ نہیں؟
معاشی تباہی کے ساتھ سماجی تباہی بھی ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ژوب میں نو مسافروں کے اغوا اور قتل، کراچی میں حمیرا اصغر جیسی فنکارہ کی لاش،یہ سب ایک ایسے معاشرے کی تصویریں ہیں جہاں زندگی بے معنی اور موت بے خبر ہو چکی ہے۔ ایسے واقعات صرف جرائم نہیں، وہ ریاستی اور سماجی ناکامی کی علامت ہیں۔
ریاستی بیانیہ اب بھی تضاد اور ابہام کا شکار ہے۔ ماہرین معیشت جیسے ڈاکٹر قیصر بنگالی ایف بی آر کے اعداد و شمار کو مشکوک قرار دیتے ہیں، جب کہ ڈاکٹر اعجاز نبی اسے معاشی استحکام کی نوید بتاتے ہیں۔ ایسے بیانات عام آدمی کے ذہن میں مزید الجھن اور بداعتمادی کو جنم دیتے ہیں۔ لوگ اب جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ان کی مشکلات کا ذمہ دار کون ہے؟ اور یہ جاننے کا حق انہیں آئین دیتا ہے، سیاست نہیں۔
قدرتی آفات جیسے حالیہ بارشیں، سیلاب اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے ریاستی نااہلی کو ننگا کر دیا ہے۔ لاہور، ملتان اور فیصل آباد میں بجلی بند، سڑکیں ڈوبی اور ہسپتال تک پہنچنا محال ہوا۔ کیا یہی ریاستی خدمت ہے؟ جب قدرتی آفت بھی ظلم میں حکومت کا ساتھ دینے لگے، تو عوام کہاں جائیں؟
ان سب مسائل نے عوام کو احتجاج کی طرف دھکیل دیا ہے۔ 19 جولائی کی ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال صرف تاجروں کا مسئلہ نہیں، یہ ایک قومی اجتماعی اضطراب کا مظہر ہے۔ #NoToUnfairTaxes، #ElectricityRelief جیسے سوشل میڈیا ٹرینڈز محض ہیش ٹیگز نہیں، یہ عوام کی چیخیں ہیں جو اب آن لائن سے آف لائن آنے کو بیتاب ہیں۔ اگر حکومت نے ان آوازوں کو سننے سے انکار جاری رکھا تو ان کے قدم ایوانِ اقتدار کی دہلیز پر ہوں گے۔
سول نافرمانی اب محض ایک نظریاتی بحث نہیں رہی بلکہ ایک عملی امکان بن چکی ہے۔ عوام کے پاس اب چند ہی راستے بچے ہیں کہ پرامن احتجاج، بلوں کا بائیکاٹ یا مکمل بغاوت اور اگر یہ سب کچھ انتشار کے بغیر ہو تو یہ اس قوم کی تہذیب کا ثبوت ہو گا لیکن اگر ریاست نے پھر بھی آنکھیں بند رکھیں تو تاریخ کا رخ بدلنا بھی ممکن ہو جائے گا۔
شمسی توانائی جیسے متبادل موجود ہیں مگر ہر شخص کی پہنچ سے دور ہیں۔ اصل حل تو حکومتی سطح پر ریفارمز اور عوام دوست پالیسیوں میں ہے۔ وہ وقت آ گیا ہے جب طاقتور طبقہ اپنے اللّے تللّے چھوڑے، مراعات کم کرے اور عوام کو جینے کا حق دے۔ ورنہ جب قسطوں میں مرتی ہوئی قوم کا صبر ختم ہوتا ہے تو پھر وہ خود فیصلہ کرتی ہے کہ جینا کیسے ہے۔
یہ صرف ایک غصے کا اظہار نہیں بلکہ ایک انتباہ ہے۔ عوام کا صبر اب لبریز ہے۔ حکومت، بیوروکریسی، اشرافیہ،سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب بند ٹوٹتا ہے تو وہ نہ صرف پانی بہاتا ہے بلکہ دیواریں بھی گراتا ہے اور نظام بھی۔
یہی وہ لمحہ ہے جب ریاست کے لیے فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی ہے کہ یا تو عوام کے ساتھ کھڑی ہو جائے یا پھر تاریخ کے ملبے تلے دفن ہونے کو تیار ہو جائے۔
یہ ملک کے ہر اس فرد کی آواز ہے جو مہینے کے آخر میں بل دیکھ کر سانس روکتا ہے، جو بچوں کو سکول چھوڑنے پر مجبور ہے، جو دوا کے لیے لائن میں مرتا ہے اور جس کے صبر کا بند قسطوں میں ٹوٹتا جا رہا ہے۔