شور کی آلودگی . خاموش قاتل، ادارے تماشائی
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
آلودگی کی کئی ایک قسمیں ہیں مگر آج ہم شور کی آلودگی کے حوالے سے کچھ بنیادی معلومات آپ تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شور کی آلودگی کوئی معمولی مسئلہ نہیں، یہ انسان کے جسم، دماغ اور رویوں پر براہ راست حملہ آور ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں پہلے ہی صحت، تعلیم اور ماحولیاتی بہتری جیسے مسائل کو ثانوی حیثیت حاصل ہے، وہاں شور کی آلودگی (Noise Pollution) ایک تیزی سے بڑھتا ہوا مگر نظر انداز کیا گیا خطرہ بن چکا ہے۔ یہ وہ آلودگی ہے جس کا اثر نظر نہیں آتا، مگر دماغ، دل، نیند، تعلیم اور انسان کی پوری شخصیت کو اندر سے گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔
جب آواز اپنی قدرتی حد (50-70 ڈیسی بل) سے بڑھ جائے اور انسانی سماعت، سکون، یا جسمانی صحت پر منفی اثر ڈالنے لگے، تو وہ شور آلودگی کہلاتی ہے۔
شور کی آلودگی کے بڑے ذرائع یہ ہیں،لاوڈ اسپیکر کا بے جا استعمال (مساجد، دکانیں، سیاسی جلسے)، شادی ہال، کنسرٹس، DJ اور دھماکے دار موسیقی، گاڑیوں کے غیر ضروری ہارن (خصوصاً رکشے، بسیں، ٹرک)، انڈسٹری کا شور، تعمیراتی مشینری اور فیکٹریاں، ریڑھی بانوں، ٹھیلے والوں اور مارکیٹوں کی بلند آوازیں، پٹاخے، ہوائی فائرنگ اور تہواروں پر شور شرابا۔
شور کی آلودگی کے انسانی صحت پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جن میں ذہنی دباؤ، چڑچڑاپن اور بے چینی، نیند میں خلل، جسمانی کمزوری، تھکن، بچوں کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہونا، بلڈ پریشر، دل کی دھڑکن کا عدم توازن، سماعت کی کمزوری یا مکمل نقصان، بزرگوں اور بیماروں کے لیے اضافی اذیت شامل ہیں۔
یہ سب ہونے کے باوجود ہم شعوری طور پر لاشعور ہیں اور ہمارے اداروں کی کارکردگی اس حوالے سے آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ہاں، البتہ فائلوں میں سب اچھا کی رپورٹ ضرور ہوگی اور ماہانہ لفافے ضرور ملتے ہوں گے جو ان کی نظر میں ان کا جائز حق ہے۔ صد افسوس ہماری ترجیحات کیا ہیں۔
شور کی آلودگی کے خاتمے کی بنیادی ذمہ داری محکمہ ماحولیات، بلدیاتی ادارے، ٹریفک پولیس، اور ضلعی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے قوانین موجود ہیں، مگر عمل ندارد۔ بڑے ہوٹل، شادی ہال یا سیاسی پروگرام "رابطوں” کے باعث کارروائی سے بچ جاتے ہیں، جبکہ چھوٹے دکاندار، رکشہ ڈرائیور یا ریڑھی بان کو چالان کر کے رپورٹ مکمل کر دی جاتی ہے۔
ماہانہ بھتہ، سیاسی دباؤ اور رشوت کی بنیاد پر شور پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ شکایت درج کرانے والے شہریوں کو "سائل” سمجھنے کی بجائے "تنگ کرنے والا” گردانا جاتا ہے۔
عام شہری کیوں متاثر ہو رہے ہیں؟ کیونکہ عوامی آگاہی نہیں۔ لوگوں کو اس حوالے سے سیمینار، ورکشاپ اور میڈیا کے ذریعے آگاہی دی جائے۔
جب قانون موجود ہو، ادارے قائم ہوں، مگر نیت نہ ہو تو مسائل صرف بڑھتے ہیں۔ اگر شور کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو ہم ایک بے سکون، بیمار، اور ذہنی مریض قوم میں بدل جائیں گے۔ بلکہ بدل چکے ہیں کیونکہ یہ عوام الناس کا بنیادی مسئلہ ہے اور ہم نے ہمیشہ عوامی مفادات کو ترجیح نہیں دی، جس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں، انہی میں سے ایک شور کی آلودگی بھی ہے۔
خاموشی صحت ہے، شور تباہی . اب فیصلہ اداروں نے کرنا ہے۔